یتیم اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی جوانیاں اس محکمے اور ریاست پاکستان کی خدمت میں کھپا دیں اور اب اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ملک کی سب سے بڑی عدالت سے فیصلہ بھی اپنے حق میں حاصل کرچکے ہیں ان کو انکا کا حق دلانے کے جہاد میں اپنا بھی حصہ تحریر کی شکل میں ڈال جائے اور گویا فراز صاحب کے اس شعر پر عمل کرنے کی عاجزانہ سی کوشش کی تھی کہ شکوہ ء ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا۔۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے،
پھر نئی انصافی حکومت کے آنے کے بعد امید بندھی تھی کہ شاید کچھ تبدیلی آجائے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ابھی تک کچھ بھی نہ ہوسکا اور پر نالہ وہیں کا وہیں گر رہا ہے۔ پہلے ذرا سا پس منظر اور پھر موجودہ حالت کا بیان اس امید کے ساتھ کہ شاید کسی صاحب اختیار دردمند کی نگاہ اس تحریر پر پڑ جائے اور حقداروں کو انکا حق ملنے کی کوئی صورت بن جائے۔
وطنِ عزیز میں اور شعبوں کی دگرگوں صورتِحال کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ حق کا نہ ملنا بھی ہے، اپنے حق کے لئے لڑنے اور جدو جہد کرنے کو جہاد کہا گیا ہے۔ آج کچھ بات پی ٹی سی ایل کے(چالیس ہزار)،40000 سے زائد پنشنرز کی ہوجائے جو پچھلے کئی برسوں سے اپنے حق کے لئے ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جو جیتی جا چکنے کے باوجود شکست کا منظر پیش کر رہی ہے۔
اس قصہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب پی ٹی سی ایل کو نجی ملکیت میں دیا گیا تھا تو معاہدے کے مطابق حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین پروفاقی حکومت کے تمام سروس اینڈ پنشن قوانین کا منصفانہ اطلاق ہونا تھا۔ واضح رہے کہ یہ پراویٹائزیشن کا عمل 1996 میں ہوا تھا۔شروع میں معاملہ ٹھیک چلا اور ہر سال بجٹ میں اعلان کردہ پنشن میں اضافہ ان ریٹائرڈ ملازمین کو دیا جاتا رہا جو اس معاہدے کے تحت آتے تھے۔پھر یکایک ہمارے وزارتِ خزانہ میں بیٹھے بابوؤں کو بچت کا خیال آیا اور بجلی گری ان بیچارے ضعیف، ناتواں،بزرگوں اور بیواؤں پر جن کے لئے پنشن ایک بہت بڑا سہارا ہوتی ہے۔جب سے اب تک پی ٹی سی ایل کے پنشنرز کو صرف 8% سالانہ اضافہ ملتا ہے اور دیگرسرکاری محکموں کے ملازمین کو حکومت کا بجٹ میں اعلان کردہ پنشن اضافہ دیا جاتا ہے۔
پنشنرز نے سارے پاکستان میں آپس میں رابطے کر کے ایک پی ٹی سی ایل پنشنرز ایکشن کمیٹی بنائی ا ور 100سو،سو روپے کا چندہ جمع کیا، پھر ایک طویل قانونی جنگ کا آغاز ہوا، جسکا اختتام 2014 میں معزز عدالت عظمی کے فیصلے پر ہوا جس میں پی ٹی سی ایل پنشنرزکے اضافے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو اضافہ دینے اور گزشتہ سالوں کے بقایا جات ادا کرنے کا حکم دیا گیاتھا۔حکومت اپیل میں گئی اور فیصلہ برقرار رہا۔ دوسری نظرثانی اپیل بھی خارج کردی گئی۔
اب موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کرکے عملی طور پر فیصلے پر عمل نہیں کررہی ہے۔ ایک اور مکرر نظر ثانی کی اپیل سرکار اور پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے دائر کی تھی جس کا فیصلہ بس اب جلد ہی متوقع ہے ،
اور پرانے فیصلے پر عمل درآمد سے بچنے کے لئے کبھی پیسے نہ ہونے کا بہانہ، کبھی جلد از جلد عمل کی طفل تسلی، کبھی کوئی اور نوکر شاہی تاخیری حربہ استعمال کیا جاتا رہا ہے! لوگوں کو امید تھی کہ واجبات اور بقایا جات اگر مل گئے تو ان کے بہت سے کام بن جائیں گے،کسی کو بچوں کی شادی کرنا ہے، کسی کو حجِ بیت اللہ کا ارمان ہے تو کوئی ذاتی گھر لینا چاہتا ہے جو کہ ان سب کا حق بھی ہے۔ کئی لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کے لواحقین منتظر ہیں کہ کب انکا حق انہیں ملے گا؟ ملے گا بھی کہ نہیں!
وطنِ عزیز میں حکمرانوں اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات اظہر من الشمس ہیں،کیا چند ارب روپے ان کے لئے نہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اس ملک اور محکمے کی خدمت میں صرف کیا اور جو اپنا ایسا حق مانگ رہے ہیں جسے اس ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی تسلیم کر چکی ہے، کیا یہ بزرگ،یہ بیوائیں، یہ ناتواں افراد کسی ہمدردی کے مستحق نہیں؟
کیونکہ معاملہ زیادہ سنسنی خیز نہیں اور دیگر معاملات بہت اہم ہیں اس لئے ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی بس کبھی کبھار برکت کے لئے ان چالیس ہزار لوگوں کے تسلیم شدہ حق کے بارے میں کوئی خبر لگا دیتا ہے، بس سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تھوڑی بہت ہلچل نظر آتی ہے۔مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ ان ہزاروں لوگوں اور ان سے جڑی لاکھوں امیدوں کا خیال کریں ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔یاد رہے کہ ربِ جلیل فرماتا ہے کہ میں مظلوم کی فریاد ضرور سنتا ہوں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو،تو بہتر یہی ہے کہ معاملہ جلد ہی نپٹا دیا جائے وگرنہ اگر ربِ جلیل کا امر حرکت میں آگیا تو ذمہ داران کو جائے پناہ ملنا مشکل ہو جائے گی۔
پھر موجودہ حکومت تو اقتدار میں آئی ہی انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہے تو کیا اس کے کارپردازان کو یہ اتنی بڑی ناانصافی جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہیں، اور وہ سب سفید پوش شریف لوگ ہیں نعرے مظاہرے اور گالم گلوچ شور شرابا بھی نہیں کر سکتے تو جس ملک میں سینکڑوں ارکان پارلیمنٹ پر تقریباسالانہ آٹھ کروڑ روپے فی رکن خرچ ہوجاتے ہیں وہاں چالیس ہزار بیواؤں اور بزرگوں کا حق دینے میں کیا مشکل پیش آئے گی جو سب ملاکر چند ارب روپے بھی نہیں بنتے،لیکن اس عمل یعنی حق دے دینے کے نتیجے جو دعائیں اس حکومت کو ملیں گی وہ ان چند روپوں سے بدرجہا بیش قیمت ہوں گی اور نہ جانے کیسی کیسی مشکلات اور بلاؤں سے موجودہ حکومت کو نجات دلا دیں گی اوران کے لئے ڈھال بن جائیں گی۔ مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے۔۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔