نیب کے تفتیش کاروں نے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے اربوں روپے مالیت کے 13 قیمتی کمرشل پلاٹوں کی نیلامی کو غیر قانونی قرار دیدیا ہے۔ پلاٹوں کی نیلامی کی منظوری کے ڈی اے گورننگ باڈی نے دی تھی جس میں پیپلز پارٹی کے جام خان شورو، ساجد جوکھیو اور جاوید ناگوری سمیت دیگر شامل تھے۔ نیب نے مذکورہ اسکینڈل میں ملوث پائے گئے پیپلز پارٹی کے ساجد جوکھیو اور جاوید ناگوری سمیت دیگر افراد کے کردار کا تعین کرنا شروع کر دیا ہے، جس کے بعد ٹھوس شواہد پر سپلمینٹری رنفرنس دائر کیا جائے گا۔ جبکہ سابق ڈی جی کے ڈی اے سید ناصر عباس سمیت کے ڈی اے کے 8 افسران کو رنفرنس میں نامزد کر دیا گیا ہے۔
نیب کے تفتیش کاروں نے کے ڈی اے کے اربوں روپے مالیت کے 13 کمرشل پلاٹوں کی غیر قانونی نیلامی کی تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ کورنگی، گلستان جوہر اور نارتھ کراچی میں کمرشل پلاٹوں کی غیر قانونی نیلامی کے مرکزی ملزم سید ناصر عباس نے دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر تجاویز تیار کی تھیں، جن کی کے ڈی اے کی گورننگ باڈی سے منظوری حاصل کرنا تھی۔ نیب کو دستاویزات سے معلوم ہوا کہ گورننگ باڈی میں وزیر جام خان شورو، ممبر صوبائی اسمبلی ساجد جوکھیو، ایم پی اے جاوید ناگوری، سیکریٹری بلدیات رمضان اعوان اور سید ناصر عباس شامل ہیں۔ جب گورننگ باڈی کے سامنے تجاویز آئیں تو باڈی میں شامل مذکورہ افراد نے تصدیق کئے بغیر 13 قیمتی کمرشل پلاٹوں کی منظوری دیدی، جس کے بعد ملزم سید ناصر عباس نے 2017 اور 2018 میں غیر قانونی نیلامی کا انتظام کرایا۔ اس نیلامی میں منظور نظر افراد کو بیٹھایا جبکہ حقداروں کو محروم رکھا گیا۔ پھر 13 قیمتی کمرشل پلاٹ منظور نظر افراد کو دے کر ذاتی فائدہ اٹھایا گیا۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ گورننگ باڈی میں شامل افراد پڑھے لکھے ہیں ان کی ذمہ داری میں شامل تھا کہ وہ تجاویز کی تصدیق کرتے۔ باڈی میں شامل تمام افراد نے نوٹ پر دستخط کئے ہیں جو ریکارڈ موجود ہے۔ تفتیش کاروں کے مطابق تحقیقات کے دوران اراکین صوبائی اسمبلی ساجد جوکھیو اور جاوید ناگوری کو موقف بیان کرنے کیلئے طلب کیا گیا تو دونوں نے عائد الزام سے انکار کیا۔ ساجد جوکھیو نے بتایا کہ وہ گورننگ باڈی کے اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے تھے نہ ہی دستخط کئے، جس کے بعد ساجد جوکھیو کے موقف کو پرکھا گیا تو معلوم ہوا کہ ساجد جوکھیو نے نوٹ پر دستخط کئے ہیں جو کہ اکثر بینک اکاوئنٹ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ساجد جوکھیو اور جاوید ناگوری کے بیانات کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا ہے اور تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے۔ جام خان شورو رمضان اعوان سمیت دیگر ملزمان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں اور ملزمان کے کردار کا تعین کیا جارہا ہے کہ کس نے کس طرح قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اور ذاتی فوائد حاصل کئے۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران ٹھوس شواہد پر مزید افراد نامزد ہو سکتے ہیں جبکہ مرکزی سابق ڈی جی کے ڈی اے سید ناصر عباس، خالد ظفر، سلیم احمد، سیف فضل احمد بخاری، سید افتخار الحسن، عرفان خان یوسفزئی، ندیم احمد صدیقی اور سید فرزند علی کو قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے پر نیب رنفرنس میں نامزد کر دیا گیا ہے۔
مذکورہ ملزمان نے پلاٹوں کی غیر قانونی نیلامی کی منظوری کی تجاویز تیار کرکے کے ڈی اے گورننگ باڈی کے سامنے رکھی تھیں۔ ملزمان نے گلستان جوہر بلاک 6 میں واقع 400 اسکوائر یارڈ کے 9 پلاٹوں ایس بی نمبر 3، ایس بی4، ایس بی 5، ایس بی 9، ایس بی 15، ایس بی 18، ایس بی 19، ایس بی 20 اور ایس بی 21، نارتھ کراچی سیکٹر فائیو ڈی میں 522 اسکوائر یارڈ کا پیٹرول پمپ کا پلاٹ نمبر پی پی ون، سرجانی ٹاؤن سیکٹر 8 میں واقع 2000 اسکوائر یارڈ کا پیٹرول پمپ کا پلاٹ اور کورنگی بلاک 12 بی میں واقع پیٹرول پمپ کیلئے 1380 اسکوائر یارڈ کے پلاٹ نمبر ایس ٹی 4 کی غیر قانونی نیلامی کرائی تھی۔