تازہ ترین
ڈونلڈ ٹرمپ آج امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گےسابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں میڈیا اور وکلأ سے گفتگوتعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔

پاور ڈویژن میں 30 کھرب روپے کی مالی بے ضابطگیاں اور غبن

power-division-misspent-rs-3-trillion
  • واضح رہے
  • اکتوبر 26, 2020
  • 2:05 شام

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 20-2019 کی رپورٹ میں 318 کیسز کی نشاندہی کی ہے، جس میں عوامی فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا

اسلام آباد: آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کو پاور ڈیژن کی جانب سے تقریباً 30 کھرب روپے کے پبلک فنڈز کے استعمال میں غلطیاں ملی ہیں، جس میں بڑی بے ضابطگیاں، بدانتظامی، غلط استعمال اور غبن شامل ہے۔ سال 20-2019 کی کے لیے اپنی آڈٹ رپورٹ جسے تقریباً 8 ماہ کی تاخیر کے بعد قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا، اس میں اے جی پی نے موجودہ صورتحال، نظم و نسق کی کمی اور کمزور مالی اور انتظامی کنٹرول کے تحت شعبہ توانائی کے استحکام پر سوالات بھی اٹھائے۔

واضح رہے کہ یہ آڈٹ مالی سال 19-2018 کے لیے مالیاتی اکاؤنٹس کی بنیاد پر تھا جبکہ یہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تحت پہلا سال تھا۔ ملک کے اعلیٰ آڈیٹر نے پاور ڈویژن اور ان سے منسلک محکموں کے اکاؤنٹس میں مجموعی طور پر 318 کیسز کی نشاندہی کی ہے، جس میں 29 کھرب 65 ارب مالیت کے عوامی فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا۔

اپنے اہم نتائج میں اے جی پی کا کہنا تھا کہ 107 ارب روپے سے زائد کی 64 بے ضابطگیاں بجلی کے سازو سامان کی خریداری، سول اور الیکٹرکل ورکس، کنسلٹنسی سروسز اور معاہدے کی بدانتظامی سے متعلق ہے۔ 50 کیسز میں اے جی پی نے 25 کھرب روپے سے زائد کی وصولیوں پر روشنی ڈالی اور 64 ارب سے متعلق آڈٹ شدہ اداروں کے داخلی قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کے 108 دیگر کیسز کی نشاندہی کی۔

اس کے علاوہ مزید 50 کیسز میں 184 ارب روپے سے متعلق ریگولیٹری قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزیوں کا پتہ لگایا گیا جبکہ 21 کیسز میں دھوکا دہی، غبن، غلط استعمال اور چوری کی وجہ سے 4 ارب روپے سے زائد کا نقصان رپورٹ ہوا۔ 4 دیگر کیسز میں کمشرل بینکوں کے ساتھ اکاؤنٹس کے نظم و نسق کے باعث ایک ارب 20 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئیں جبکہ ہیومن ریسورس ریگولیٹریز سے متعلق 26 کروڑ 30 لاکھ روپے مالیت کے 21 کی نشاندہی کی گئی۔

ان اہم حقائق میں اے جی پی نے ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوش (ٹی اینڈ ڈی) نقصانات کم کرنے میں پاور ڈسٹریبوشن کمپنیز (ڈسکوز) کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ اس میں کہا گیا کہ ڈسکوز کو مالی سال 18-2017 میں 18.3 فیصد ( 13 روپے 6 پیسے فی ایک فیصد نقصان کی شرح پر) ٹی اینڈ ڈی نقصانات کے حساب سے 240 ارب روپے کے نقصانات ہوئے، جو سال 19-2018 میں 15 روپے 18 پیسے فی ایک فیصد نقصان پر 17.7 فیصد ٹی اینڈ ڈی نقصان کے حساب سے 276 ارب روپے تک بڑھ گیا، اس کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ اس سال تکنیکی نقصان میں 0.6 فیصد کی معمولی کمی حاصل ہوئی لیکن اس نے ٹیرف اضافے کو ختم کردیا۔

علاوہ ازیں چونکہ ریگولیٹر نے صارفین کے ٹیرف کے لیے 15.8 فیصد نقصانات کی لاگت لگائی، ڈسکوز کو صارفین سے اس طرح کے زائد نقصان کی لاگت کی وصولی کے بعد بھی ان دو برسوں میں 72 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ آڈٹ میں یہ بتایا گیا کہ طریقہ کار کے تحت فیلڈ اسٹاف نے مٹیریل (سامان) کی اکاؤنٹنٹ نہیں کی اور اس کی وجہ سے لیکیج اور نقصان کے لیے مواقع بڑھ گئے، کئی رپورٹ میں فیڈرز کی بحالی اور نگرانی کا ذکر کیا گیا تھا جو آباد نہیں تھے جس کے نتیجہ فیڈر نقصانات کے ناقص انتظام کی صورت میں نکلا۔

اس کے علاوہ کیش ریکنسلیشن اور ریونیو کلیکشن کے اہم شعبوں میں انٹرنل کنٹرول غیراطمینان بخش رہا جبکہ لاہور اور پشاور کی ڈسکوز میں پینشن کی ادائیگیوں میں دھوکا رہی اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی میں ریونیو فراڈ کی بھی نشاندہی کی گئی۔ اے جی پی کا کہنا تھا کہ (پاور ڈویژن میں) انٹرنل آڈٹ ہونے کے باوجود بار بار بے ضابطگیوں کی تکرار نے اس کے مؤثر ہونے پر سوالیہ نشان بنا دیا۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے