کراچی: چیئرمین بزنس مین گروپ (بی ایم جی) و سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) زبیر موتی والا، صدر کے سی سی آئی ایم شارق وہرا اور چیئرمین پاکستان اپرل فورم محمد جاوید بلوانی نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے معاشی مشیروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بجلی کے نرخوں میں 15 فیصد اضافے اور کیپٹیو پاور پلانٹس کی بندش کا بے وقت اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کو فوری واپس لیں جن سے نہ صرف برآمدی صنعتوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے بلکہ حکومت کی جانب سے برآمدات میں اضافے کے لیے کی گئی تمام کوششوں کو ضائع کرنے کے علاوہ مقامی صنعتوں کی پیداوار کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرکے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے حکومتی فیصلوں سے متعلق خبروں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ بالکل بھی مناسب وقت نہیں کہ کاروبار و برآمدات مخالف فیصلوں کو مسلط کیا جائے باالخصوص جب ٹیکسٹائل کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور برآمد کنندگان نے بڑی تعداد میں غیر ملکی خریداروں کے ساتھ سودے طے کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے فیصلوں سے ہماری ساکھ پر بہت منفی اثر پڑتا ہے کیونکہ بیرون ملک بیٹھے خریداروں کی نظرمیں شک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں کہ آیا ہم وقت پر اپنی ترسیل کے وعدوں کو پورا کرسکیں گے یا نہیں۔
انہوں نے کہاکہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے یہ اعلان ناقابل عمل اور تکنیکی طور پر بالکل غلط ہے اس طرح کے بیان نے ابھی سے انتشار پیدا کردیا ہے اور یہ قومی مفاد کے منافی ہے۔ کراچی کی صنعتیں انتہائی مشکلات سے دوچار ہیں اور انہوں نے ای سی سی کے ذریعے حکومت کے یک طرفہ فیصلے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر لیا گیا ہے۔
صنعتوں نے کے سی سی آئی کو آگاہ کیا کہ آئین کے ذریعے ان کے بنیادی حق کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور یہ صنعتوں کا قانونی حق ہے کہ وہ اپنی صنعتوں کو چلانے کے لیے کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس حاصل کریں۔اگر کیپٹیو پاور پلانٹس کی گیس یک طرفہ طور پر بند کی گئی تو صنعتکار اپنا جائز اور قانونی حق استعمال کرنے کا محفوظ رکھتے ہیں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 199کے ذریعے اپنے جائز اور قانونی حق کا استعمال کرتے ہوئے کاروبارکی حفاظت کے لیے عدالت سے رجوع کریں۔
انہوں نے مزید کہاکہ جیسا کہ اسد عمر، تابش گوہر ودیگر کی پریس کانفرنس کے دوران انکشاف ہوا۔پریس بریفنگ میں حکومتی نمائندوں نے اعلان کیا تھا کراچی کی صنعتوں کی تباہی کی قیمت پرکے الیکٹرک کو بلاجواز گیس کی فراہمی انتہائی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی فراہمی معطل کرنے اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے فیصلے سے عام صنعتوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوگی جو برآمدی صنعتوں کی سپلائی چین کا ایک اہم حصہ ہیں لہٰذا عام صنعتیں ایک طرح سے برآمدی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں اس کے نتیجے میں ہول سیل اور ریٹیل تجارت کے کاروبار پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جو بالآخر مجموعی طور پر انتشار اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرے گا۔
انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے اور کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس کی بندش سے حکومت کی برآمدات دوست پالیسیوں کو نقصان پہنچے گا اور برآمدات پر ضرب کاری کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدنی اور محنت کش شعبے کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ فیصلے صرف بھارت اور بنگلہ دیش کے ہمارے حریفوں کے حق میں ہوں گے جو کسی نہ کسی طرح پاکستانی برآمد کنندگان کے حاصل کردہ تمام آرڈرز کو اپنے ملکوں میں منتقل کرنے کی کوشش کرکے صورتحال سے فائدہ اٹھائیں گے۔
انہوں نے یہ یاد دلایا کہ تقریباً دو دہائیوں قبل توانائی کے شدید بحران کے تناظر میں صنعتوں نے ای پی بی (ٹی ڈی اے پی) کی پُرزور سفارشات پر بجلی پیدا کرنے کے لیے گیس کیپٹیو پاور پلانٹس لگائے تھے جبکہ اس وقت کے ای کی نجکاری نہیں کی گئی تھی اور صنعتوں کو مطلوبہ مقدار میں بجلی بھی نہیں مل رہی تھی اور اسی وجہ سے وہ خود بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیزل جنریٹر استعمال کررہے تھے جو برآمدی پیداواری لاگت کو غیر مسابقت کی طرف لے جارہا تھا۔
اس صورتحال میں صنعتوں کی یہ مجبوری تھی کہ وہ خود کو منظم کریں اور اپنی بقا قائم رکھنے کے لیے ازخود بجلی پیدا کرنے کے انتظامات کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ صنعتی صارفین پیداواری اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے کیپٹیو جنریشن پلانٹس کو زیادہ سے زیادہ کارکردگی پر چلاتے ہیں جو کمبائنڈ سائیکل پلانٹ ہیں اور بھاپ، گرم پانی وغیرہ پیدا کرتا ہے تاہم یوٹیلیٹی کمپنی کے پاور پلانٹس غیر مؤثر اور متروک ماڈل اور ٹیکنالوجی پر مشتمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا کراچی کی 4500 سے زائد گھریلو صنعتوں کو گیس سے محروم رکھنا ملک اور کراچی کے وسیع تر مفاد میں ہے یا نہیں؟ جس کے وہ حق بجانب مستحق ہیں یا غیر ملکی ملکیت نجی کمپنی کے ای کے حق میں ہے؟
انہوں نے کہاکہ کراچی کی صنعتوں کو ہونے والے تمام نقصانات اور صنعتکاروں کے محصولات کی مد میں ہونے والے نقصان سے بچنے کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا جس سے غیر یقینی صورتحال اور امن و امان کی صورتحال پیدا ہوگی۔ جب ملک میں گیس دریافت ہوئی تھی تو صنعتیں گیس کے اولین صارفین تھے جبکہ یہ ستم ظریفی ہے کہ کراچی کی صنعتوں کو مسلسل متاثر کیا جاتا رہا ہے اور ماضی میں ان کا گیس کا مستحق حصہ بھی کے الیکٹرک کو دیا جارہا تھا۔
صنعتوں نے انتہائی مایوسی کا اظہار کیا اور مذمت کی کہ حکومت نے کیوں آنکھیں بند کیں اور ماضی میں کے الیکٹرک کو کسی جی ایس اے پر دستخط کیے بغیرگیس سے بجلی پیدا کرنے کے لیے پلانٹ لگانے کی اجازت دی اور یہ حقیقت ہے کہ ملک میں پچھلے 10سے 15 سالوں سے گیس کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ ایک طرف حکومت نے 2011 سے نئے صنعتی گیس کنکشن پر پابندی عائد کی ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت گھریلو گیس کے کنکشن فراہم کررہی ہے اور اس نے جی ایس اے پر دستخط کیے بغیر کے ای کو بھی گیس دی ہے جو متضاد اور امتیازی سلوک ہے۔
صنعتوں نے اس افسوسناک حالت پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ حکومت کو خطیر ریونیو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتے ہیں مگر پھر بھی گیس سے محروم ہیں جبکہ کے الیکٹرک جو پاکستان سے زرمبادلہ باہر لے جاتا ہے اسے حکومت کی مکمل سپورٹ اور بلاجواز حمایت حاصل ہے۔کراچی کی صنعتوں نے کے الیکٹرک کے اس دانستہ اقدام کو ماضی کی حکومتوں کے کچھ عناصر کی ملی بھگت سے کراچی کی صنعتوں کو تباہ کرنے اور بالآخر پاکستان کی معیشت کو سبوتاژ کرنے کا باعث قرار دیا ہے۔