غیر پیشہ ورانہ انتظامیہ کی جانب سے پائلٹس اور جہاز کے عملے سمیت 121 کی برطرفی نے پی آئی اے کا مذاق بنا دیا۔ قومی ایئر لائن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مزید 337 ڈسپلنری کیسز ایسے بھی ہیں جن میں ملازمین کی جانب سے جعلی تعلیمی دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں۔
حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن نے پی آئی اے انتظامیہ سے ملازمین کی برطرفی کے مسئلے پر بات کی۔ کمیٹی کے اکثر ارکان نے کہا کہ اسٹاف کی برطرفی سخت فیصلہ ہے۔ کمیٹی نے 2017 میں ڈیوٹی پر برقرار رکھے گئے 12 ملازمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے اگر کچھ لوگوں کے ساتھ نرم رویہ رکھتی ہے تو اس کی منیجمنٹ باقیوں کے ساتھ بھی برابری کا سلوک کرے۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہا تھا کہ پی آئی اے میں جعلی ڈگری والوں کیلئے معمولی سزائیں بھی ہیں۔
پی آئی اے منیجمنٹ نے موقف اختیار کیا کہ وہ جعلی ڈگری والوں کیخلاف سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کارروائی کر رہی ہے، لیکن کمیٹی خصوصاً چیئرمین نے انہیں بتایا کہ عدالتِ عالیہ نے عملے کی برطرفی کا حکم نہیں دیا۔
اس حوالے سے عدالت میں کچھ کیس زیر التوا بھی ہیں، جہاں قومی ایئر لائن انتطامیہ نے اپنے اقدامات کا دفاع کرنے کی زحمت تک نہ کی۔
سینئر ایئر ہوسٹس ثمینہ سلیم نے برخاستگی لیٹر پر پی آئی اے چیئرمین، چیف ایگزیکٹو آفیسر، چیف فلائٹ آپریشنز اور چیف ایچ آر افسر کیخلاف سینئر سول جج، لاہور کی عدالت میں مقدمہ درج کرا رکھا ہے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ پی آئی اے ٹریینگ سرٹیفکیٹ اور کوالیفکیشن مینوئل ایڈیشن VI کے تحت بھرتی کئے گئے عملے کے نئے رکن کی ٹریننگ اور لائسنسنگ کے حوالے سے مقررہ قانون یہ ہے کہ امیدوار کی کم از کم عمر 18 برس ہو اور وہ ہائر سکینڈری اسکول کا سرٹیفکیٹ رکھتا ہو۔
مدعی نے کہا کہ انہوں نے میٹریکولیشن ڈگری سمیت تمام ضروری دستاویزات فراہم کی تھیں، جو بعد ازاں تصدیق کے مرحلے سے گزریں اور پھر 10 جنوری 1996 کو انہیں بطور فضائی میزبان ڈیوٹی جوائن کرنے کا لیٹر دیا گیا۔
2008 میں انہیں سینئر ایئر ہوسٹس کے طور پر پروموٹ کیا گیا اور کئی بار پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتراف میں قدردانی کے لیٹر بھی دئیے گئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 2018 میں آنے والی نئی غیر قانونی انتظامیہ نے دوسری فضائی کمپنیوں کے عملے کو پی آئی اے میں لانے کی کوششیں کیں، جس کے خلاف انہوں نے آواز اٹھائی تو انہیں برطرفی سمیت سنگین نتائج کی دھمکی دی گئیں۔
بعد ازاں ان پر جعلی ڈگری رکھنے کے من گھڑت الزامات لگا کر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا، جو دراصل پی آئی اے قوئد و ضوابط کی بھی خلاف ورزی ہے۔ برطرف ایئرہوسٹس نے الزام لگایا کہ پی آئی اے انتطامیہ دوسری ایئر لائنز کے عملے کو ہائر کرنا چاہتی تھی۔
دریں اثنا ایک دوسرے کیس میں سول عدالت نے متعدد تاریخوں کے باوجود پیش نہ ہونے پر پی آئی اے کے 4 بڑے افسران کو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد ملک، ڈائریکٹر فلائٹ آپریشنز کیپٹن عزیز خان، چیف ایچ آر آفیسر ایئر وائس مارشل سبحان وزیر اور چیف پائلٹ کیپٹنز علی زمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔
17 اپریل 2019 کو سیشن عدالت نے وارنٹ گرفتاری کیخلاف مدعہ الیہ ان کی پٹیشن کی سماعت کی اور تمام فریقین کا موقف سننے کے بعد وارنٹ گرفتاری معطل کئے۔ درخواست میں کہا گیا کہ تھا سول جج کی جانب سے وارنٹ کا اجرا قانون کی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ پی آئی افسران پر کیپٹن میاں شہزاد کی ان کے عہدے پر بحالی کے عدالتی احکامات نظر انداز کرنے کے الزامات تھے۔