ہماری ہوش میں ایسا پہلا بار نہیں ہوا ۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں طاہر القادری صاحب ، نواز شریف کی حکومت میں عمران خان اور طاہر القادری اس کے بعد عمران خان کا دوسرا دھرنا شامل ہے ۔ سیاسی کارکنان کی گرفتاری بھی کوئی نیا ہنگامہ نہیں ہے ضلع قصور میں 2017 میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کو گرفتار اور نظر بند کیا گیا تھا اب انہی کارکنان کی جانب سے ن لیگ کے کارکنان کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے۔
گوجرانوالہ کے جناح سٹیڈیم میں میں جلسے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں ، سٹیج اور کرسیوں کے ساتھ ساتھ ڈی جےبھی منگوائے جارہے ہیں ۔ پنجاب بھر کے تمام لیگی قائدین کو گاڑیاں بھر بھر کے جناح اسٹیڈیم بھرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں ۔ مریم نواز، نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر والے پوسٹر لگا دیئے گئے ہیں سیاسی قائدین کی فہرست بھی تیار کر لی گئی ہے کون کون خطاب فرمائے گے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام ف ، سمیت پی ڈی ایم کے تمام اتحادی جماعتوں کے کارکنان کو بھی احتجاج کے لئے تیاریوں کا ٹاسک دے دیا گیا ہے ۔ ساڑھے چھ ایکڑ کا جناح سٹیڈیم بھرنے کے لئے 35 ہزار کارکنان کی ضرورت ہے
گوجرانولہ این اے 79 کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ این اے 80 سے چوہدری محمود بشیر ورک 81 سے خرم دستگیر خان، 82 عثمان ابرار این اے 83 میں چوہدری ذولفقار احمد بھنڈر اور این اے 84 سے اظہر قیوم نارا کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہے لاہور سے 11 ایم این اے ، قصور سے تین ایم این اے اور گوجرانولہ سے ملحقہ اضلاع میں بھی ن لیگ کی واضح اکثریت ہے ۔
رانا سکندر حیات ضلعی صدر پاکستان مسلم لیگ نواز قصور کا کہنا تھا گوجرانولہ جلسہ میں کارکنان کی گرفتاری سے مایوس نہیں ہیں 16 اکتوبر کے جلسے کے لئے قافلے روانہ ہونگے ان کی قیادت رانا حیات خان کرے گے ۔ قصور چونیاں پتوکی اور کوٹ رادھاکشن سے کارکنان پرعزم ہیں ہمارا مقصد جمہوریت کا استحکام ہے ۔
دوسری جانب حکمران جماعت پہ یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ راستے کنٹینر لگا کے بند کئے جارہے ہیں ۔ کامونکی، لاہور، کی جانب سے جی ٹی روڈ پر کنٹینرز بھی پکڑے جارہے ہیں تاکہ راستے روکے جاسکے ۔ حکمران جماعت کے اعلامیہ کے مطابق کسی طرح کا کوئی راستہ نہیں روکا گیا گوجرانولہ کا جناح سٹیڈیم میں جلسے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پی ڈی ایم کو 16 اکتوبر کیلئے جناح اسٹیڈیم میں جلسے کی اجازت مل گئی ہے ۔
انتظامیہ کی جانب سے طے شدہ 28 نکاتی معاہدے کے مطابق کل شام 5 سے11بجے تک جلسےکی اجازت ہوگی، جبکہ ملکی سلامتی کے اداروں اور آئین کے خلاف کوئی تقریرنہیں کی جائے گی۔
سیاسی شعور اور برداشت کی کمی کی وجہ سے شدت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے عمران خان نے 126 روز تک ڈی چوک میں دھرنا دیا ۔ ایک لمبی سیاسی جدوجہد کا راگ الاپا جاتا ہے مگر اس کے باوجود حذب اختلاف کے صرف ایک روز ہ جلسے کے لئے پورے پنجاب کی حکومتی مشینری روکنے کے لئے لگا دی ۔ کارکنان کی گرفتاری کا دکھ پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان جانتے ہیں مگر اس کے باوجود جلسے سے روکنے کے لئے پوری کوشش کی جارہی ہے پی ٹی آئی کے کارکنان آج گرفتار ہونے والے کارکنان کے لئے خوش ہیں ۔
سیاست ایک بند گلی میں داخل ہونے جارہی ہے سیاسی قائدین تو میدان جنگ میں بھی بات چیت کے لئے تیار رہتے ہیں ۔
امریکی سرکار افغانستان کی جنگ کو بھی سیاسی حکمت علمی سے ختم کرنے کے لئے مزاکرات کررہی ہے دوسری جانب شدت پسندی اور سیاست کو بطور مذہب اختیار کرنے والے وہ جیالے ہیں جن کے لئے اصول ضابطہ قانون صرف قائد کی کے الفاظ ہیں ۔ پاکستان میں جمہوریت ابھی تک پروان چڑھی ہی نہیں اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی بجائے خاندانی واراثت ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ کارکنان کی اخلاقی اور سیاسی تربیت کی ضرورت ہے