پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم و آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ موجودہ شرح سود نے معیشت کا گلا گھونٹ رکھا ہے، جس میں کمی کئے بغیر اقتصادی سرگرمیاں اور شرح نمو کم ہوتی چلی جائے گی۔ جبکہ بے روزگاری اور ٹیکس کا شارٹ فال بڑھتا رہے گا۔ ملک کے مالیاتی نظام میں شرح سود کو 13.25 فیصد سے کم کر کے 9 فیصد تک لانے کی گنجائش موجود ہے جس پر غور کیا جائے۔
میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ 2 ماہ میں محاصل کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ ستمبر میں ایف بی آر کو 5 سو ارب روپے جمع کرنا ہوں گے جو مشکل ہے، کیونکہ گزشتہ سال اسی مہینے میں 334 ارب روپے جمع ہوئے تھے۔ ٹیکس اہداف میں 30 فیصد اضافہ سے کاروباری برادری کی پریشانی میں اضافہ جبکہ معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف کاروباری لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف طلب میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبہ کا حال بہت برا ہے۔ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 54 فیصد کمی آئی ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر مینوفیکچرنگ کے اہم شعبہ کی مصنوعات کی طلب میں 30 فیصد کمی آئی ہے۔ اگر مینوفیکچرنگ شعبہ کی پیداوار کی کھپت بحال نہ ہوئی تو انہیں اپنے پلانٹ بند کرنا پڑجائیں گے، جس سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلے گی۔
معروف صنعت کار نے کہا کہ ٹیکس کے نظام میں تبدیلیوں اور غیر حقیقی اہداف کی وجہ سے حکومت اور کاروباری برادری میں ٹھن گئی ہے۔ جبکہ بہت سے کمپنیوں کے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ ڈسٹری بیوٹرز شناختی کارڈ کی شرط ماننے کو تیار نہیں۔ جبکہ ٹیکس نا دھندگان اور ٹیکس گزاروں کے مابین خلیج برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری کی ہمت اور عوام کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ اس لئے صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔