انبیائے کرام کی سرزمین، فلسطین لہو لہو ہے، غزہ کے مختصر قطعہ زمین کو محصور و مجبور نہتے فلسطینی باشندوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بچوں بوڑھوں، بیماروں، ز،خمیوں اور معذوروں کا لحاظ کئے بغیر اسرائیلی طیارے اندھا دھند بمباری کر رہے ہیں، اسرائیلی توپ خانہ کسی خصوصی ہدف کے بغیر غزہ پر گولہ باری میں مصروف ہے، غزہ کی سرحد کے ساتھ نصب کی گئی 150 ایم ایم کی ان توپوں سے برسنے والے گولوں سے بہرہ کر دینے والا شور پوری فضا پر محیط ہے ،بمباری اور گولہ باری کے دوران تمام جنگی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے مسجدوں، سکولوں، ہسپتالوں، ایمبولینس گاڑیوں اور سو فیصد شہری رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے اپنی جارحانہ کارروائیوں کا دائرہ شام تک بڑھا دیا ہے، شام کے دمشق اور حلب کے دو اہم ہوائی اڈے اسرائیلی میزائل حملوں سے تباہ ہو گئے ہیں اور انہیں ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ اور لبنان میں سفید فاسفورس بم استعمال کرنے کی تصدیق کی ہے جو انسانی جانوں کے لیے نہایت مہلک ہوتا ہے۔ غزہ میں سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے اسرائیل نے جو دس ہزار بم اور آٹھ ہزار ٹن بارود گرایا ہے اور جس کا اعتراف نہایت ڈھٹائی سے اسرائیلی فوجی ترجمان نے خود کیا ہے، اس کے نتیجے میں اب تک ہزار وں بے گناہ فلسطینی شہری شہادت کی منزل پا چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جام شہادت نوش کرنے والوں میں معصوم اور شیر خوار بچوں کی تعدادپچیس سو سے زائدبتائی گئی ہے جبکہ دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔دہشت گردی کے عالمی چمپئن امریکا کی سر پرستی میںبدمست اسرائیلی فوج کے قطعی غیر انسانی سفاکانہ طرز عمل کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہری آبادی پر حملوں سے قبل کوئی انتباہ تک نہیں کیا جاتا اور دھڑلے سے رہائشی مکانات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوجی محاصرے کی وجہ سے محصور علاقے میں اشیائے خور و نوش، پانی، ایندھن اور ادویات وغیرہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، بجلی کی عدم فراہمی سے پورا علاقہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، انٹرنیٹ اور رابطے کے دوسرے ذرائع بھی مسدود ہو چکے ہیں۔ ظلم و سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ کے مکینوں کے لیے قبرستانوں تک پہنچنا ناممکن بنا دیا ہے لہٰذا سوگوار خاندان اپنے مرحومین کو خالی جگہوں میں کھودی گئی غیر رسمی قبروں میں دفن کر رہے ہیں۔
ایک طرف اسرائیلی فوج مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہے مگر دوسری جانب مہذب، اصول پسند اور حق و انصاف کی علمبردار ہونے کی دعویدار مغربی دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ ہر یکطرفہ ظلم و ستم ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہی نہیں کر رہی بلکہ نہایت ڈھٹائی اور بے حیائی سے کھلم کھلا اسرائیل کی سفاکیت کی پشت پناہی بھی کر رہی ہے۔ مہذب دنیا کے سرخیل امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے واضح الفاظ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونے کے اعلان کے ساتھ اسلحہ اور گولہ بارود سے بھرے جہاز تل ابیب پہنچا دیئے ہیں تاکہ اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے ۔مغربی دنیا کا ظلم اور ظالم کی حمایت کا یہ طرز عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ دھڑلے سے ڈنکے کی چوٹ نہایت ڈھٹائی سے کسی شرم و حیا کے بغیر کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ثنا خوان تقدیس مغرب اور انسانی حقو ق کے چمپئن کہاں ہیں، جو صبح شام مغربی دنیا کی اصول پسندی اور عدل و انصاف کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔ کیا انہیں یہ صریحاً ظلم و نا انصافی اور مغرب کی جانب سے اس کی کھلم کھلا تائید و حمایت دکھائی نہیں دے رہی، انسانی حقوق کا شور مچانے والی تنظیمیں اس سفاکیت پر دم سادھے خاموش کیوں ہیں؟شک کی بنا پر پاکستان جیسے ملکوں پر پابندیاں عائد کرنے والے ایف اے ٹی ایف کے عہدیدار کہاں ہیں؟ ذرا ذرا سی بات پر پابندیاں عائد کرنے والا اقوام متحدہ اس وقت غیر فعال کیوں ہے؟ کیا اسے غزہ کے مظلوم اور مجبور عوام پر ہونے والا ظلم دکھائی نہیں دے رہا؟ نائن الیون کو جواز بنا کر امریکہ کو افغانستان پر چڑھ دوڑنے کی آزادی دینے اور کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی اجازت دینے والے اقوام متحدہ کو اسرائیل کی طرف سے نہتے فلسطینی عوام پر برسانے جانے والے انتہائی جان لیوا فاسفورس بم آخر کیوں نظر نہیں آرہے ؟کیا اس کی تمام پابندیاں صرف کمزور اور مسلمان ملکوں کے لیے ہیں اور با اثر و طاقت ور مغربی دنیا کو تمام اخلاقی پابندیوں اور بنیادی انسانی حقوق پامال کرنے کی کھلی آزادی ہے؟۔
فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطق مغربی کنارے میں 4 لاکھ 90 ہزار یہودی آبادکار ناجائز طور پر بسائے گئے ہیں۔ اس طرح کے خوف اور دھمکیوں کی فضا مسلسل جاری رہتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ حملے مسیحیوں پر بھی جاری رہتے ہیں۔ فلسطینیوں کو تو اس وقت بھی دہشت گرد کہا جاتا تھا جب وہ غلیلوں اور پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال پر مسلم حکمرانوں کا کردار شرمناک ہے،اب تمام مسلم ممالک کے عوام کو اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیل اور مغرب کے پٹھو حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کا فرض ادا کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ، او آئی سی عرب لیگ وغیرہ سے کسی بھی قسم کے نتائج مطلوب ہوں تو ان اداروں میں مسلم عوام کے حقیقی نمائندہ حکمران پہنچانے ہوں گے۔ یہ بات سننے میں بڑی عجیب لگے گی کہ پاکستان یا کسی اسلامی ملک میں اسرائیل کی پٹھو حکومت قائم ہے۔ لیکن اس کے اقدامات بتارہے ہوتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے جو اسرائیلی مفادات کے خلاف ہو۔ خواہ وہ اسرائیل سے پوچھتے ہوں یا اس کے سرپرستوں سے یا کوئی انہیں ہدایات دیتا ہو۔ نتیجہ بہرصورت یہی نکلتا ہے کہ اسرائیل کے مفاد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ لہٰذا اصل رکاوٹ دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک امت مسلمہ کے ممالک پر غلام حکمراں مسلط رہیں گے اس وقت تک اسرائیل سمیت کسی بھی جارح طالم کے ہاتھ نہیں روکے جاسکیں گے۔