عالمی دہشت گرد امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی اور پشت پناہی کی بدولت بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنالیا ہے۔
کشمیریوں پر بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ظلم کی ہر حد کو پار کیا جارہا ہے اور کشمیریوں کی نشل کشی کرنے کےلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں 74 برس سے بے رحمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کا بے دریغ خون بہا رہا ہے۔
ایک عالمی سازش کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنوانے کے بعد اب بین الاقوامی برادری بھارت اور پاکستان کے حکمران سب مل کر کشمیر کے مسئلے کے اصل سبب اور حقائق کو تبدیل کرنے پر کمر بستہ ہیں، جبکہ اوآئی سی ایک مردہ ادارے کی صورت میں سامنے موجود ہے۔
بھارت نے کشمیریوں پر سرکاری نوکری اور پاسپورٹ کے اجراء پر پابندی لگا دی۔ تحریک آزادی، سیاسی تنظیم سے وابستگی، پتھر بازی اور دیگر کارروائیوں کو جرائم لکھا گیا ہے، ان جرائم میں ملوث افراد کسی سرکاری ملازمت کے اہل نہیں ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو کوئی کلیئرنس نہیں ملے گی۔
کشمیر کے واقعات کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ اب پاکستان اور کشمیر دونوں ہی جگہ جبر کا انداز اختیار کر لیا گیا ہے۔ پاکستانیوں کو جبری کورونا پابندیوں پر عمل کے لیے کہا جا رہا ہے۔ موبائل سم، ملازمت، تنخواہ اور دیگر چیزوں کو ویکسین سے مشروط کیا جا رہا ہے۔
فی الحال کشمیر کی بات کر لی جائے جسے شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ پاکستان ساری دنیا کا مسئلہ قرار دے چکے۔ اور ساری دنیا کسی اور مسئلے میں اُلجھی ہوئی ہے لہٰذا کشمیریوں کو جو کچھ کرنا ہے اپنے بل پر کرنا ہے اور وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے تو زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا جاتا۔
یہ پانچ اگست بھی ایسے موقع پر آرہی ہے کہ اس کے دو دن بعد بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالے گا اور پاکستان کی جانب سے کیا خوب کہا گیا ہے کہ پاکستان اس موقع پر بھارت کو سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرائے گا۔
دفتر خارجہ نے بھارت کے بارے میں اُمید ظاہر کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے اجلاس کو قواعد اور کونسل کی اقدار کے مطابق چلائے گا۔ حیرت ہے 74 برس سے بھارت کے دھوکے اورجھوٹ کو بھگتنے کے باوجود ہمارے وزیر خارجہ بھارت سے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ قواعد و ضوابط اور اقدار کی پاسداری کرے گا اور پاکستان کے یاد دلانے پر سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرا دے گا۔
جو ملک 74 برس سے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی دھجیاں اڑا رہاہے وہ سلامتی کونسل کا عارضی صدر بن کر اس کی قرار دادوں پر عمل کرنے لگے گا۔ پاکستانی حکمرانوں کو اپنے عوام کے خلاف کشمیریوں جیسی پابندیاں لگانے سے فرصت نہیں مل رہی ہے وہ تو ان کو نوکریوں، تنخواہوں اور سفر پر پابندی کے طریقے سوچ رہے ہیں تو وہ کشمیر کے عوام کے لیے بھارت سے کیسے بات کر سکتے ہیں۔
اگر بھارت کو اس کا وعدہ اور ذمے داری یاد دلانی ہے تو پاکستان کھل کر کشمیر کی آزادی کی بات کرے۔ بد قسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیریوں سے بے وفائی کی ہے۔ جہاں تک کشمیریوں کے خلاف نئی پابندیوں کا تعلق ہے تو وہ آئین کی خلاف ورزی او ر بنیادی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتی ہیں تو جس حکومت نے یہ پابندی لگائی ہے وہ پورے بھارت میں یہی کر رہی ہے۔
لیکن امریکہ، یورپ، اقوام متحدہ سمیت کسی کو بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزی نظر نہیں آتی۔ نظر آتی بھی ہے تو ان کی جانب سے کوئی کارروائی نظر نہیں آتی بلکہ الٹا بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔
کبھی امریکہ کی آس، کبھی او آئی سی سے امیدیں، کبھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے توقعات، یہ سب بیکار ہیں۔ کوئی مدد کو نہیں آئے گا۔ جو کچھ کرنا ہے خود پاکستان کو کرنا ہے۔ تنظیم اسلامی کانفرنس کے رکن ممالک کے بھارت سے گہرے تجارتی اور کاروباری تعلقات ہیں جن کو یہ مسلم ممالک محض کشمیر یا مجبور و مقہور مسلمانوں کی خاطر نظر انداز نہیں کر سکتے خواہ کفار بے دریغ ان کا خون بہاتے رہیں۔
بس ان کے معاشی و تجارتی مفادات پورے ہوتے رہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران اگر اسلامی غیرت کا مظاہرہ کریں تو بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ لیکن اپنے مفادات کے سامنے کشمیریوں، فلسطینیوں اور برما کے مسلمانوں کے خون کی کوئی وقعت نہیں۔
بھارت کو بھی مسلم ممالک کی بے غیرتی کا خوب اندازہ ہے۔ اگر 74 برس سے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا جا رہا تھا تو آج اسے دشمن کے مکمل قبضے میں دیکھ کر اطمینان کیوں ہے۔ اسے چھڑانے کےلئے بے چین کیوں نہیں ہیں۔ احتجاج کرنا حکمرانوں کا کام نہیں ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے ظلم وجبر سے آزاد کرانے کےلئے صرف اور صرف جذبہ جہاد کی ضرورت ہے۔