ضلع چاغی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا کُل رقبہ 44 ہزار 748 کلو میٹر ہے۔ ضلع کا قیام 1986ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ انگریز قابض حکومت نے یہاں F.C Webb Ware کو یہاں پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا تھا۔
چاغی کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا ضلع بھی صوبہ بلوچستان میں ہے۔ یہ ضلع خضدار ہے، جو 35 ہزار 380 کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے مشہور ضلع چاغی کا صدر مقام چاغی شہر ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع چاغی کی آبادی 2 لاکھ 26 ہزار 8 نفوس پر مشتمل ہے۔ 2005ء میں یہاں کی آبادی ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ 45 ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮭﯽ۔ ﭼﺎﻏﯽ ﮐﮯ ﺷﮩﺮﯼ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺑﺎﺩﯼ 16 ﮨﺰﺍﺭ، ﺩﯾﮩﯽ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﯽ 2 ﻻﮐﮫ 9 ﮨﺰﺍﺭ ﮨﮯ۔ یوں رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سب بڑا ضلع اپنی آبادی کے لحاظ سے کافی چھوٹا ہے۔
ضلع چاغی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ پاکستان کا سرحدی ضلع ہے اور اس کی سرحدیں افغانستان اور ایران دونوں ممالک سے ملتی ہیں، جس کے سبب یہاں صدیوں سے افغان اور ایرانی قبائل بھی آباد ہیں۔
ضلع چاغی میں جو قبائل بستے ہیں، ان میں بادینی، جمالدینی، مینگل، محمد حسنی، پرکانی، سمالانی، گور گیج، بنگل زئی، نوتیزئی، ریکی اور بڑیچ قابلِ ذکر ہیں۔ قبائل کی اکثریت بلوچی اور براہوی زبانیں بولتی ہے، جبکہ بعض قبائل دونوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔
چاغی مردم خیز سر زمین ہے۔ یہ ریکی، بشام اور قیصر خان جیسے کلاسیکی شعرا سمیت دیگر عظیم شعرا اور ادبا کی جائے پیدائش ہے، جن میں میر گُل خان نصیر، منیر بادینی، آزات جمالدینی، پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی، عاقل خان مینگل اور خلیفہ گُل محمد نوشکوی شامل ہیں۔
مقامی باشندوں کا ذریعۂ معاش زراعت، گلہ بانی، تجارت، ٹرانسپورٹ اور سرکاری ملازمت ہے۔ اگرچہ اکثر مقامی افراد پیٹرول سمیت دیگر ایرانی مصنوعات کی تجارت سے بھی وابستہ ہیں، مگر سرحدی تناؤ کے سبب اس میں اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔
چاغی میں صحرا، ریت کے ٹیلے، سیاہ پہاڑ اور میدانی علاقے موجود ہیں۔ موسم کے اعتبار سے اس کا شمار گرم علاقوں میں ہوتا ہے اور بعض اوقات نوکُنڈی اور دالبندین میں درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔
یہاں ایک تاریخی قلعہ ہے۔ جو نوتیزئی قبائل نے 1700ء میں بنایا تھا۔ نوتیزئی قبائل نے یہاں کابل کے امیر عبدالرحمن کو پناہ دی تھی۔ یہ خطہ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ ریکوڈک منصوبے کے تحت چاغی میں موجود اربوں ڈالر مالیت کے سونے و تانبے کے ذخائر کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، لیکن عالمی سازشوں کے نتیجے میں ضلع اور ملک کے عوام اب تک اس سے مستفید نہیں ہوسکے۔
اسی طرح چاغی کے علاقے، نوکُنڈی میں وسیع پیمانے پر پایا جانے والا ماربل، اونیکس دُنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ چاغی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ جب مغل شہنشاہ ہمایوں کو شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست ہوئی، تو وہ گجرات (بھارتی ریاست) سے بہ راستہ عُمر کوٹ گنداوا، سبّی اور ڈھاڈریہاں پہنچے۔ تب چاغی ایک آزاد قبائلی علاقہ تھا، البتہ اس پر قندھار کے گورنر کا اثر و رسوخ تھا۔ ہمایوں اپنے لُٹے پِٹے قافلے کے ساتھ چاغی کی ایک با اثر شخصیت، ملک خطی کے ہاں مہمان ٹھہرے۔
تب ہمایوں کے سوتیلے بھائی، میرزا کامران قندھار کے گورنر تھے اور انہوں نے ملک خطی کو پیغام بھیجا کہ جب ہمایوں چاغی پہنچے، تو اُسے گرفتار کر کے قندھار پہنچا دیا جائے۔ ملک خطی چاہتا تو ہمایوں کو اُن کے سوتیلے بھائی کے حوالے کر کے انعام و اکرام حاصل کر سکتا تھا، مگر وہ مقامی قبائلی روایات کا امین تھا، جن کے تحت مہمان کو دشمن کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا، اُس نے زادِ راہ، تیز رفتار گھوڑے اور محافظ فراہم کر کے ہمایوں کو ایران روانہ کیا اور ساتھ ہی گورنر قندھار کو یہ تسلی بھی دی کہ ’’جب ہمایوں چاغی آئے گا، تو اُس کے حکم کی تعمیل کی جائے گی۔‘‘
اُس وقت اگر ملک خطی دبائو یا لالچ میں آ کر شہنشاہ ہمایوں کو گورنر قندھار کے حوالے کر دیتا، تو آج ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوتی، کیونکہ ہمایوں نے ایران پہنچ کر وہاں کے شہنشاہ، طہماسپ سے مدد حاصل کی اور اس کے نتیجے میں دوبارہ اپنا تخت حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔ خان آف قلات کے دَور میں بھی چاغی مختلف قبائل کی آماج گاہ تھا۔
ضلع چاغی اپنی جغرافیائی و اقتصادی اہمیت کے سبب ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد ضلع ہے کہ جس کی سرحدیں دو ممالک، افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔ نیز 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے یہیں دالبندین کی پہاڑیوں میں ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ بد قسمتی سے اربوں روپے کے معدنی ذخائر رکھنے والے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے اس خطے کے حالات مخدوش ہیں۔