تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

پاکستان کا نظام صحت، اس قدر بوجھ کا اہل نہیں

corona facilities in pakistan
  • عبدالرحمٰن عمر
  • مئی 14, 2020
  • 3:15 شام

ہمارا نظام صحت ناکافی وسائل کے ساتھ پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اور اگر اسی رفتار سے وبا بڑھتی رہی تو نظام صحت اس بوجھ کو برداشت نہ کر پائے گا۔

حکومت کیطرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا، جب یومیہ کورونا وائرس کے ایک ہزار مریض سامنے آ رہے تھے۔ جبکہ لاک ڈاؤن کھلنے کے دوسرے ہی دن ایک دن میں دو ہزار مریض سامنے آئے ہیں۔ یاد رہے کہ 2 مارچ کو پاکستان میں کورونا وائرس کے پانچ مریض تھے۔ ایک ماہ بعد یعنی 2 اپریل کو 2450 اور اب 44 دن بعد یہ تعداد 35 ہزار سے زائد ہے۔

حکومت نے صنعتکاروں، تاجروں اور علماء سے احتیاطی تدابیر کی فہرستوں پر رضامندی لینا ہی کافی سمجھا ہے۔ جبکہ ہمارے بازار عید کی خریداری کیلئے ایک بار پھر تنگ پڑ گئے ہیں۔

احتیاطی تدابیر کے اعلانات، خالی اعلانات ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ماسک، سینیٹائزر، دستانے، مخصوص انٹری پوائنٹ، جسمانی فاصلہ وغیرہ نام کی چیزیں ندارد ہیں۔ خواتین، بچے اور عمر رسیدہ افراد بلا روک ٹوک بازاروں کی بھیڑ میں نظر آرہے ہیں۔ جبکہ انتظامیہ شائد عوام سے جاری رہنے والی آنکھ مچولی کی تھکن اتار رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ مریضوں میں اضافہ کی موجودگی شرح سے جولائی کے وسط تک پاکستان میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہونے کا خدشہ ہے۔ آندھی کی صورت بڑھتی وبا کا یہ خطرہ، اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے، کہ ہمارا نظام صحت ناکافی وسائل کے ساتھ پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اور اگر اسی رفتار سے وبا بڑھتی رہی تو نظام صحت اس بوجھ کو برداشت نہ کر پائے گا۔

پاکستان میں تمام تر سرکاری اور عارضی فیلڈ ہسپتال ملا کر اب تک کی حکومتی جدوجہد کے بعد کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے 19 ہزار سے کچھ زائد بستر کا انتظام ہو پایا ہے۔ جبکہ آئندہ کے لئے ہوم ائسولیشن کی تجویز کو بھی منظور کرلیا گیا ہے۔ اگر دستیاب طبی سہولیات کو دیکھا جائے تو اوسطاً 1580 مریضوں کے لئے ایک بستر موجود ہے۔ کورونا سے متاثرہ مریضوں کو علامات کے مطابق طبی سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ معمولی و درمیانی نوعیت کے مریضوں کو فیلڈ ہسپتال میں رکھا جاسکتا ہے۔ اور ایسے ہر 30 مریضوں کے لئے چھ، چھ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرنیوالے ڈاکٹرز و دیگر طبی عملہ سمیت 84 افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسطرح حکومت کو نئے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف اور انتظامی عملہ کی بھرتی کی بھی ضرورت ہے۔

جبکہ درمیانی یا شدید متاثرہ مریضوں کیلئے ہسپتال اور انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا وائرس کے مریضوں میں سے صرف شدید علامات والے تقریباً ایک چوتھائی مریضوں کو ہسپتال میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں کورونا سے متاثرہ اوسطاً 170 مریضوں کیلئے انتہائی نگہداشت یونٹ میں صرف ایک بستر دستیاب ہے۔ جبکہ دیگر امراض کا شکار مریضوں کی انتہائی نگہداشت سہولت کی ضرورت اس کے علاؤہ ہے۔

طبی عملہ کیلئے حفاظتی کٹس کا مسئلہ بھی تاحال مکمل طور پر حل نہ ہوسکا ہے۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود ڈاکٹرز کی تنظیمات آئے روز حکومت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں۔

اگر اعدادوشمار سے موجودہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہ ہو، تو کراچی شہر کے باسی ڈاکٹر فرقان الحق کی موت کافی حد تک صورتحال کو واضح کرتی ہے۔ اسی رواں ماہ مئی کی 4 تاریخ کو کراچی کے ڈاکٹر فرقان الحق جو کورونا وائرس کا شکار ہونے کے باعث گھر میں آئسولیشن میں تھے۔ طبیعت شدید خراب ہونے پر ان کی بیوی ایمبولینس میں ڈال کر شہر کے ایک سے دوسرے ہسپتال میں گھومتی، سفارشیں کرواتی اور منت و سماجت کرتی رہیں لیکن بدقسمتی سے بستر میسر نہ آ سکا۔ اور آخر اسی حالت میں ڈاکٹر فرقان الحق کی وفات ہوگئی۔

وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز حفاظتی سامان کیلئے واویلا کرتے،حکومت، سیاسی، سماجی، مذہبی راہنماؤں اور عوام کے آگے ہاتھ جوڑتے اور عدم تعاون پر شدید ذہنی اور جسمانی دباؤ کا شکار ہیں۔ اپنے خاندان کو چھوڑ کر طبی خدمات سر انجام دینے والے ان ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ کے 766 افراد کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ ادارہ امراض خون کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی نے چند دن پہلے خبردار کیا تھا کہ" اگر ہم نے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی ہیں تو ہم لوگ اور صرف تباہی کیطرف بڑھ رہے ہیں۔ہمارا نظام صحت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ کورونا وائرس اور معمول کے مریضوں کو سنبھال نہیں پا رہا۔ اگر ہم نے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات نہیں کئے تو ہمیں یہ مناظر دیکھنے پڑیں گے کہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر مریض پڑے ہوں"

حکومت، سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی قائدین اور عوام کو آنے والی خوفناک صورتحال کا ادراک کرنا چاہئے۔ اس وائرس سے بچاؤ کیلئے تاحال کوئی دوا یا ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ بچاؤ کے لئے دستیاب احتیاط کی واحد تدبیر پر سختی سے کار بند ہونا پڑے گا۔ ورنہ پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار نظام صحت بیٹھ جائے گا۔ اور خدانخواستہ اٹلی و سپین جیسے خوفناک اور ناقابلِ تصور مناظر یہاں بھی نظر آئیں گے۔

عبدالرحمٰن عمر

پڑھنے، لکھنے کا شوق، پیشہ وکالت اور فری لانس جرنلزم سے وابستہ

عبدالرحمٰن عمر