محنت کش طبقہ کسی بھی معاشرے میں انتہائی اہمیت کا حامل اور معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔دین اسلام نے بھی محنت کشوں کے حقوق پر زور دیا ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔پاکستان میں محنت کش طبقے کے بنیادی حقوق دلانے کیلئے بے شمار ٹریڈ یونین تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔انہی میں سے ایک پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن بھی ہے جس کے مرکزی چیئرمین عبدالستا ر کا شمار ملک کے نام ور ٹریڈ یونین لیڈرز میں ہوتا ہے۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالستا ر صاحب نے اپنی زندگی ٹریڈ یونین اور محنت کش طبقے کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ وہ مزدوروں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور محنت کش طبقے کی صحت، پیشہ ورانہ تحفظ و سلامتی کے سلسلے میں قانون سازی کے حوالے سے بھی شعور اُجاگر کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان اور محنت کشوں سے ان کی بے پناہ محبت ہر مصلحت سے بالاتر نظر آتی ہے، بطور ٹریڈ یونین لیڈر ان کا کیریئر مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے معرکہ آرائیوں سے بھرا پڑا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین عبدالستار کے ساتھ کوئٹہ میں ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اس دوران جو بات چیت ہوئی وہ قارئین کی خدمت میں حاضرہے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین عبدالستا ر نے بتایا کہ کوئلے کا شمار توانائی کے اہم اور قدیم ذرائع میں ہوتا ہے، پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ اس کے چاروں صوبوں میں 185.175 ارب ٹن کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں کوئلہ تھرمل بجلی پیدا کرنے، اینٹیں پکانے اور گھریلو ضروریات پوری کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت پنجاب میں کوہستان نمک کے علاقے میں زیادہ تر کوئلہ ڈنڈوت ،پڈھ ، مکڑوال اور چواسیدن شاہ کے مقامات سے نکالا جاتا ہے۔صوبہ سندھ میں کوئلے کی کانیں تھر، سارنگ اور لاکھڑا میں واقع ہیں۔صوبہ خیبرپختونخوا میں ہنگو، اورکزئی ایجنسی کے علاقوں اپر، لوئر اور سینٹرل اورکزئی کے مقامات پر تقریباً 200 کے قریب کوئلے کے کانیں موجود ہیں۔ تاہم اعلی قسم کا کوئلہ شیخان قبیلے کے علاقے میں پایا جاتا ہے جہاں تقربناً 100 سے زیادہ کانیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ خادی زئی، مشتی اور کلایہ میں بھی درجنوں کانیں موجود ہیں،صوبہ بلوچستان میںدکی،مچھ،بولان ، سورنج، چملانگ، ہرنائی ،خوست، شارگ ، ڈیگاری اورشیریں آب سمیت دیگر علاقوںمیں کوئلے کی کان کنی ہورہی ہے بلوچستان کے پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں واقع کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے والے کان کنوں کا تعلق سوات، شانگہ لوئر دیر، اپر دیر، بلوچستان کے علاقہ قلعہ سیف اللہ ،مسلم باغ، توبہ کاکڑی، توبہ اچکزئی، ہزارہ برادری اور افغانستان سے ہیں۔مائنز ورکرز کی ہیلتھ اور سیفٹی کا ایشوپوری دنیا میں ہے۔ پاکستان میں بھی مائنز ورکرزکو صحت اور تحفظ کے حوالے سے بہت ساری مشکلات درپیش ہیں، حادثات کی صورت میں بڑی تعداد میں کان کن جاں بحق ، زحمی اور معذور بھی ہوتے ہیں۔جن کمپنیوں کے ساتھ وہ مزدور وابستہ ہیں وہ ان ورکرز کی صحت و سلامتی کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے سنہرے لوگ جن کے چہروں پر کوئلے کے سیاہ دھبے ہوتے ہیں مگر ان کی آنکھیں اُمید سے روشن ہوتی ہیں، وطن عزیز کو روشن کرنے کی اُمید، ارض پاک کی صنعتوں کا پہیہ چلانے کی آس، پاک سرزمین کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے خواب لئے یہ کان کن سینکڑوں فٹ زیر زمین اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں، جو نہ صرف اپنے وطن کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں کان کنوں کیلئے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں اور کوئلے کے مزدور کو درپیش بے پناہ مسائل حل کرنے کیلئے کوئی روڈ میپ بھی نہیں ہے۔ 2000سے لےکر رواں سال جون 2023 تک کوئلے کی کانوں میں تین ہزار سے زائد کان کن جاں بحق ہو چکے ہیں۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین عبدالستار نے بتایا کہ کوئلے کی کان میں پانچ اقسام کی گیس پائی جاتی ہے، کئی کانیں چار ہزار سے چھے ہزار فٹ گہری ہیں ۔ قانون کے مطابق کان کے اندر جانے والا راستہ 7 بائے 6 فٹ چوڑا ہونا چاہیے لیکن لاقانونیت اور پیسہ بچانے کی وجہ سے نیچے جاتے جاتے یہ راستہ چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلاجاتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں قانون پر عمل درآمد ہوتا تھا اور قانون کے مطابق ایک متبادل راستہ بھی بنایا جاتا تھا جسے وینٹی لیشن ”ہوائی “کہتے تھے۔ پاکستان میںکوئلے کی کانوں میں وینٹی لیشن یا ہوائی کا مناسب انتظام نہیں اور اگر یہ انتظام ہو تو حادثات کو روکا جا سکتا ہے،اگر وینٹی لیشن کا مناسب انتظام ہو تو گیسوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جو حادثات ہوتے ہیں انہیں روکا جا سکتا ہے۔ کانوں میں میتھین گیس اور کاربن مونو آکسائیڈ گیسیں ہوتی ہیں لیکن ان کی مناسب مانیٹرنگ کا نظام بھی نہیں،اگر گیسوں کی مانیٹرنگ کا مناسب انتظام ہو تو ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو کلیئر کرنے کے بعد کان کنوں کو بھیجا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کانوں میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کیلئے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کی کانوں میں ان کے استعمال کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے پرانے طریقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اگر کان کے اندر 15 سے 20 فیصد گیس ہو تو اس سے ایک بہت بڑا دھماکہ ہو سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پوری کان بھی بیٹھ سکتی ہے۔وینٹی لیشن ”ہوائی “کا راستہ کسی ایمرجنسی صورت حال میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔لیکن کوئلے کی کانوں کے مالکان اور ٹھیکیداروں نے پیسے بچانے کیلئے یہ متبادل انتظام ختم کردیا ہے۔ اگر کان میں بھی متبادل راستہ موجود ہوتو حادثے کی صورت میںغریب کان کن بچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کانوں کی چھت اور ڈھانچے کو سہارا دینے کیلئے پہلے کیکر کی مضبوط لکڑی استعمال کی جاتی تھی لیکن اب پیسے بچانے کیلئے سفیدے کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے جو ہلکا سا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرپاتی اور پوری کان منہدم ہوجاتی ہے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین عبدالستار نے بتایا کہ انگریز سرکار نے کان کنی کے حوالے سے مائنز ایکٹ مجریہ 1923ءبنایا تھا جس پر وہ عمل درآمد بھی کرتا تھا۔ اس قانون میں کان کن کی صحت، جان کی حفاظت، اوقات کار وغیرہ سب طے شدہ ہیں لیکن اب پاکستان کے دیگر قوانین کی طرح اس قانون پر عمل درآمد بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ 1923 میں انگریز سرکار نے مائین ایکٹ بنایا تھا، اس ایکٹ کے تحت ضروری ہے کہ کوئلہ کان کے نزدیک ہر وقت ایمبولینس موجود رہے۔ اس کے علاوہ کوئلہ کان کے نزدیک ایک ڈسپنسری اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ کان کنوں کیلئے پینے کا صاف پانی ہونا چاہیے، لیکن ایسا کوئی انتظام کوئلہ کانوں کے قریب نظر نہیں آتا۔ ایکٹ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ کان کن آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتا لیکن اس سے 10 سے 12 گھنٹے تک کام کرایا جاتا ہے اور بے چارے مزدور کو اوور ٹائم کی مزدوری نہیں دی جاتی۔ کوئلہ کان کن کو ہر روز کے ایک ہزار روپے ملتے ہیں اور وہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ اس ملک میں کان کے مالک کی حالت بادشاہوں جیسی ہے۔ وہ محلات میں رہتا ہے لیکن کان کن مزدور کی حالت بد ترین ہے ۔کوئٹہ میں کوئلہ اٹھارویں صدی میں دریافت ہوا تھا، لیکن اس کیلئے قانون سازی 1923ءمیں کی گئی اس وقت سے اب تک ان مزدورں کے کیلئے کوئی خاطر خواہ قانون سازی نہیں کی گئی۔قانونی طور پر کسی بھی کان میں کام شروع کرنے سے پہلے زہریلی گیس کو چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کان کے اندر آکسیجن کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوتا ہے جبکہ ایک کان کے اندر متبادل راستہ بنانا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں کان کنوں کو نکالنے میں آسانی ہولیکن بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں ان انتظامات کو یقینی نہیں بنایا جاتا، جس کے باعث کانوں میں حادثات ایک معمول بن گئے ہیں۔
بلوچستان میں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی بڑی وجہ ٹھیکیداری نظام بھی ہے۔ لوگ اپنے نام پر مائننگ کیلئے اراضی الاٹ کراتے ہیں لیکن خود اس پر کام کرنے کی بجائے ان کو ٹھیکیداروں کے حوالے کرتے ہیں۔ بڑے ٹھیکیدار پھر ان کو پیٹی ٹھیکیداروں کو دیتے ہیں۔ ٹھیکیدار اور پیٹی ٹھیکیدار انسانوں کو بچانے کیلئے حفاظتی انتظامات کا خیال رکھنے کے بجائے زیادہ تر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ کوئلہ کیسے نکالیں۔مقامی افراد کے مطابق کوئلے کی کانیں بااثر لوگوں کی ہیں۔ حادثات کی صورت میں نہ صرف ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ ان کو سیفٹی کے لوازمات کو یقینی بنانے کا بھی پابند نہیں بنایا جاتا۔بلوچستان میں جدید صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ آئے روز ہونے والے حادثات کی روک تھام کیلئے سرکاری سطح پرکسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کئے جاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کسی ماین میں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو ٹھیکیدار اس کو چھپاتا ہے ،پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن ملک کے کسی بھی حصے میں کسی حادثے کے نتیجے میں مائنز ورکر ز کی اموات پر حکومت سے احتجاج کرتی ہے اور میڈیا کے ذریعے ان حادثات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جانی ومالی نقصان بارے حکومت اور عوام کو آگا ہ بھی کرتی ہے،اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مائنز ورکرز کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں اب بلوچستان کے مائنز ورکرزکو ڈیتھ گرانٹ کمپنسیشن 5 لاکھ روپے ملتی ہے۔ جبکہ ورکرز ویلفیئر بورڈکی جانب آٹھ لاکھ روپے ملتے ہیں ۔ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین عبدالستار نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 7 کروڑ مزدور ہیں جن میں سے تقرےباً 5 لاکھ مائنز اےنڈ منرل ورکر ز ہیں جو پہاڑوں کا سینہ چیر کر اُس میں سے مختلف دھاتیں نکال کر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے ان محنت کشوں کو صحت و سلامتی کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی محنت کش طبقے کی صحت وسلامتی اور خوشحالی سے وابستہ ہے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین عبدالستار کا کہنا تھا کہ کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کی روک تھام کیلئے ہر ملک کی سیفٹی اینڈ ہیلتھ پالیسی ہونی چاہئے ،ورکرز کو سیفٹی کے تمام آلات فراہم کرنا ،رجسٹرڈ میں نام درج کرناکمپنی مالک کی بنیادی ذمہ دار ہے لیکن پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں اس پر عمل نہیں ہوتا ۔معدنیات کی کمائی کا دس فیصد حصہ مائنز ورکرز کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے اور انہیں جدید آلات کی فراہمی کیلئے مختص کیا جانا چاہئے۔ مائنز ورکر ز کی صحت و سلامتی کے حوالے سے اقدامات کئے جانے چائیں، حکومت ، محکمہ معدنیات ، مائن مالکان اور مائنز ورکر کے حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں کو متحد ہو کر قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئے۔ جب تک حکمرانوں ، صنعت ، مائن مالکان ، ٹھیکیدار سمیت ہم سب کا منشور انسانیت نہیں ہو گا ہمارا احساس زندہ نہیں رہ سکتا، انسانیت کا رشتہ سب سے عظیم اور بہترین رشتہ ہے اور ہم سب کو مل کر اس رشتہ کو مضبوط بنانے کیلئے کام کرنا چاہئے۔جب احساس کا رشتہ مضبوط بن جائے گا تب مزدور کے حالات بھی بدل جائیں گے۔اگر تمام لیبر یونینز کے عہدیدار اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری کے ساتھ سر انجام دیں تو مزدوروں کو صحت و سلامتی سمیت دیگر حقوق مل سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشن C-176 کی توثیق کی جائے ،یہ مزدوروں کی صحت و سلامتی کا قانون ہے اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشن C-176 کے حوالے سے آگاہی مہم چلا رہی ہے ہم جدوجہد کر رہے ہیں تاکہ حکومت پاکستان اس قانون کی تو ثیق کرے۔پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین عبدالستار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں قدیم بوسیدہ نظام رائج ہے اب اس نظام کو ختم کرکے سی ایم آر ٹیکنالوجی، لانگ وال کول ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے۔ میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سمیت دیگر گیسوں کی سطح کو جانچنے کاجدید نظام متعارف کرایا جائے، گیسوں کی جانچ کیلئے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز متعارف کرائے جائیں۔حکومتی سطح پر ریسکیو کے بھی انتظامات کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجائے، اگر ریسکیو، مائن انسپکٹر اپنا کام ذمے داری اور ایمانداری سے سرانجام دیں تو حادثات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔کان کنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کیلئے حفاظتی آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ مائنز ایریا میں صحت کی جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال بنائے جائیں۔ ہر کان کے قریب ایمرجنسی کے لیے ایمبولینس سروس مہیا کی جائے اور ابتدائی طبی امداد کو یقینی بنایا جائے۔ قدیم ریسکیو نظام کی جگہ جدید ریسکیو نظام لایا جائے۔ کان کنوں کو سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر فنڈ ( ڈیتھ گرانٹ ، میرج گرانٹ اور بچوں کے لیے تعلیمی وظائف دیئے جائیں) حادثاتی اموات پر کم از کم فی کس 20 لاکھ پر معاوضہ ادا کیا جائے اور گروپ انشورنس کو لازمی کیا جائے۔ ملک میں کوئلے کی خدمت کو بطور انڈسٹری تسلیم کیا جائے۔شدید زخمی اور معذور ہوجانے والے کان کنوں کے معاوضے کا تعین سرکاری سطح پر کیا جائے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ کان کنوں کو روزگار اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرے۔