اولمپک گیمز میں منشیات کے استعمال کی ایک طویل تاریخ ملتی ہے۔ یہ سلسلہ قدیم اولمپکس سے جاری ہے، جہاں ایتھلیٹس اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے اور حریف پر برتری حاصل کرنے کیلئے چھپکلی کھایا کرتے تھے۔
معلوماتی ویب سائٹ کے مطابق چھپکلی کا ”گوشت“ خاص طریقے سے تیار کیا جاتا تھا۔ منشیات کے استعمال کا سب سے پہلا کیس 1904ء میں منظر عام پر آیا۔ 1904ء کے اولمپک گیمز میں میراتھن کے فاتح امریکی ایتھلیٹ تھامس ہکس نے قوت بخش ادویات لینے کا اعتراف کیا تھا۔ 1950ء کی دہائی میں اولمپک انتظامیہ نے اس امر پر غور کیا کہ نشہ آور دوائیں یا منشیات کے استعمال کے باعث مقابلے کے دوران کسی ایتھلیٹ کی جان بھی جا سکتی ہے۔
بعد ازاں بڑے پیمانے پر اولمپینز کی جانب سے منشیات کے استعمال کی افواہیں پھیلنے پر انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی (او آئی سی) نے اس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ 1967ء تک او آئی سی نے اولمپک مقابلوں میں منشیات کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی اور یہ قواعد و ضوابط 1968ء کے ونٹر اولمپکس میں لاگو کر دیئے گئے تھے۔
اس کے باوجود 1968ء سے اب تک ہونے والے گرمائی اور سرمائی اولمپک گیمز میں منشیات کے استعمال کے بے شمار کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ یاد رہے، جس برس او آئی سی نے یہ قانون متعارف کرایا تھا، اسی ایونٹ میں ممنوعہ ادویات کے استعمال کا کیس سامنے آیا۔
اولمپک 1968ء میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے ایتھلیٹ ہانس گنر لجنوال کا ڈوپ ٹیسٹ لیا گیا، جس میں وہ ناکام ہوگئے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 53 برس کے دوران اولمپک گیمز میں لگ بھگ 300 ایتھلیٹس منشیات استعمال کرنے پر پکڑے گئے، جن میں 230 گرمائی اولمپکس اور تقریباً 70 کیسز سرمائی اولمپکس کے دوران منظر عام پر آئے۔
وکی پیڈیا کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ منشیات اور دیگر نشہ آور ادویات استعمال کرنے والوں میں دو انگلش ایتھلیٹس بھی شامل ہیں۔ سیؤل اولمپکس 1988ء کے دوران کیرتھ براﺅن اور 2002ء ونٹر اولمپک میں ایلن باکسٹر منشیات اسکینڈل کی زد میں آگئے تھے اور تحقیقات کے بعد ان دونوں برطانوی ایتھلیٹس پر الزام ثابت ہوگیا تھا۔
تاہم منشیات استعمال کرنے والوں میں صرف برطانوی ایتھلیٹس ہی شامل نہیں ہیں۔ بلکہ دنیا کے 40 سے زائد ممالک کے اولمپینز اس جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں، جن میں روس، امریکہ، قازقستان، سویڈن، آسٹریلیا، پولینڈ، اسپین، جرمنی، آئرلینڈ، منگولیا، یوکرین، بھارت، ناروے اور بلغاریا قابل ذکر ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق جدید اولمپکس کی تاریخ میں سب سے زیادہ ڈوپنگ کیسز روس کے ایتھلیٹس کے سامنے آئے ہیں، جنہیں مغربی میڈیا کے بقول سرکاری سرپرستی میں قوت بخش ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ تاہم روس ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2012ء کے لندن اولمپکس اور 2016ء کے ریو ڈی جنیرو اولمپک گیمز میں سامنے آنے والے ڈوپنگ کیسز کی تعداد ماضی کے مقابلوں میں بہت کم رہی۔ لندن اولمپکس کے کئی برس بعد پتا چلا کہ ان مقابلوں میں 23 کھلاڑیوں کے ڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آئے تھے۔
اسی طرح 2016ء ریو ڈی جنیرو مقابلوں میں گوکہ 111 روسی کھلاڑیوں کو منشیات کے استعمال کے شبہ پر مقابلے سے باہر کر دیا گیا تھا، لیکن اس کے بعد بھی 8 ایتھلیٹس کو نشہ آور ادویات کے استعمال کا مرتکب پایا گیا۔
دوسری طرف موسم سرما کے اولمپکس میں ڈوپنگ کا رحجان زیادہ دیکھنے میں آیا۔ 2014ء میں سوچی اولمپکس میں شرکت کرنے والے درجنوں روسی اویتھلیٹ بعدازاں ڈوپنگ الزامات پر میڈلز سے محروم کردیئے گئے تھے۔ جبکہ 2018ء پیونگچین اولمپکس میں سامنے آنے والے چار ڈوپنگ کیسز میں سے بھی دو روسی ایتھلیٹس کے تھے۔
حیران کن طور پر اولمپک گیمز کی تاریخ میں سب سے زیادہ کیسز ایتھنز اولمپکس 2004ء میں رپورٹ ہوئے۔ دوسری جانب 1980ء میں ماسکو میں ہونے والے اولمپکس میں ایک بھی منشیات اسکینڈل سامنے نہیں آیا، جو او آئی سی کیلئے کافی اطمینان بخش تھا۔