پوری دنیا اور بالخصوص وطن عزیز کے لوگوں کے دل اضطراب سے بھرے ہوئے ہیں لیکن اُمید پھر بھی ہے کہ نیا سال ایک نئی صبح، خوشیاں اور کامیابیاں لائے گا۔ لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو صورت حال مایوس کن ہے جس کو دیکھتے ہوئے امکانات سے زیادہ خدشات موجود ہیں۔وطن عزیز میں حالات سیاسی، سماجی، اور اخلاقی لحاظ سے بدتر ہیں، نوجوان بے مقصدیت کے ساتھ نشے اور جرائم کا عادی بن رہے ہیں، مایوسی کے بادلوں نے گہرا اثر ڈالا ہوا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ عام آدمی کی زندگی میں ہر لمحہ درد اور تکلیف بڑھتی ہی جارہی ہے۔ جرنیلوں ، ججوں ، سیاست دانوں ، بیورو کریٹس اور میڈیا مالکان کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ملک کے معاشی حالات اتنے خراب ہیں کہ تقریباً ملک کی آدھی آبادی خط غربت سے نیچے پڑی ہے۔ مہنگائی کا طوفان ہر روز نئے حملے کررہا ہے جبکہ بے روزگاری کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جا رہا ہے۔ عوام بلک اور سلگ رہے ہیں، پاکستان کی معیشت برباد ہے، عوام کی اکثریت غربت، محرومی اور ذلت کی گہرائیوں میں غرق ہونے پر مجبور ہے ۔صنعتیں بڑے پیمانے پر بند ہورہی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی آمدن کے تھوڑے بہت ذرائع سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔
علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی انتہائی مشکل ہوچکی ہے۔ عوام مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ یہ سب کسی ایک سال یا کسی ایک حکومت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ تسلسل کے ساتھ قبضہ اور جعلی مینڈیٹ اور جعلی الیکشن کے تحت حکومت کرنے والی مخصوص اشرافیہ کی نااہلی اور مجرمانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کو ختم کررہے ہیں اور خودکشوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ بنیادی ضرورت کی چیزیں اس ظالمانہ بقا کے نظام میں آسائشیں بن گئی ہیں۔غلامانہ ذہنیت کی حکمرانی کی وجہ سے اسٹرٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل پاکستان افراتفری اور انتشار کا شکار ہے اور ہم عالمی قوتوں کے غلام ہوکر رہ گئے ہیں کیونکہ ان کے فیصلوں کا بین الاقوامی قوتوں اور کھلاڑیوں کو ہی فائدہ حاصل ہو تا ہے ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے یہی ہماری تاریخ ہے۔ گوکہ ملک میں نئے سال میں وسوسوں اور اندیشوں کے ساتھ انتخابات ہونے جارہے ہیں، لیکن پوری قوم کو 8فروری کے انتخاب سے کوئی اُمید نہیں ہے، اور ابھی تو انتخاب ہوںگے یا نہیں اسی مخمصے میں قوم پھنسی ہوئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ بد عنوان اسٹیبلشمنٹ، حکمران اور ریاستی ادارے اتنے گل سڑ چکے ہیں کہ ان سے لوگوںکو کسی خیر کی اُمید نہیں رہی ہے، کیونکہ ان کے پاس سماج اور ہر ہر شعبے میں پھیلے زہر کا کوئی تریاق نہیں ہے، وجہ صاف ہے کہ انہیں نہ ہی ملک سے ہمدردی ہے اور نہ ہی مسائل کا ادراک ہے۔ عوام فرسودہ نظام میں اب گھٹن محسوس کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، کوئی رہنما نہیں ہے جو مسائل کے بھنور سے نکلنے کی راہ دکھا سکے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جرنیل ہر طرح کے احتساب سے بلند ہیں،جرنیلوں یا فوج کا ملک کی تحریک آزادی میں کوئی کردار نہیں اس کے باوجود پاکستانی جرنیل پورے ملک پر قابض ہوگئے ہیں، ملک کی سیاست ان کے قبضے میں ہے۔ خارجہ پالیسی ان کے قبضے میں ہے۔ داخلہ پالیسی ان کے قبضے میں ہے۔ معیشت ان کے قبضے میں ہے۔ عدالتیں ان کے قبضے میں ہیں۔ ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہیں۔ پاکستان پر جرنیلوں کا یہ قبضہ دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ پاکستان جرنیلوں کی بیگمات کو جہیز میں ملا ہے۔ چناں چہ جرنیل اسی وجہ سے پاکستان کے مالک ہیں۔پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسے اسلام کا قلعہ بننا تھا پاک سرزمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہونا تھی مگر جرنیلوں نے ملک کے نظریے سے غداری کرتے ہوئے پاکستان پر اپنی حاکمیت قائم کی۔جرنیلوں کی آمریت نے پاکستان کو چوں چوں کا مربہ بنادیا۔ پاکستان نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، ہم ا ±دھر کے رہے نہ اِدھر کے رہے کی ٹھوس مثال ہے۔ پاکستانی جرنیل اگر بھارت فتح کرتے یا کم سے کم کشمیر ہی بھارت سے چھین لیتے تو ان کی بالادستی قابل فہم ہوتی۔ مگر جرنیلوں نے تو اس کے برعکس آدھا ملک ہی گنوا دیا۔
1971ءکے بحران میں پورا ملک جرنیلوں کے ہاتھ میں تھا۔ شیخ مجیب جرنیلوں کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات جیت چکے تھے، چناں چہ اقتدار ان کے حوالے کردیا جانا چاہیے تھا مگر جرنیل ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔ چناں چہ انہوں نے اقتدار اکثریتی پارٹی کو دینے کے بجائے پاکستان بنانے والے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ اس بحران میں فوجی آپریشن کرنے والے جنرل نیازی کا دماغ اس حد تک خراب کیا کہ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم بنگالی عورتوں کا اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد حکومت پاکستان نے جو حمودالرحمن کمیشن بنایا اس نے جنرل یحییٰ سمیت چھے اعلیٰ فوجی افسروں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی مگر بدقسمتی سے کسی کا بھی کورٹ مارشل نہ ہوسکا اور جرنیل ملک توڑ کر بھی احتساب سے بالا تر رہے۔بدقسمتی سے جرنیلوں نے پاکستان کے پورے سیاسی نظام کو مذاق بنادیا ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں تو جعلی، پوری قوم کو پہلے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بار کون سی جماعت فتح یاب ہوگی اور کون ملک کا وزیراعظم بنے گا۔ حد تو یہ ہے کہ جرنیل بلدیاتی اداروں کی سطح کی سیاست کو کنٹرول کررہے ہیں۔بدقسمتی سے ملک کی پوری سیاسی قیادت پر بھی جرنیلوں کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کے پروردہ تھے اور وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف خود جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی کی تخلیق ہیں۔ الطاف حسین کو بھی جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین بنایا۔ عمران خان بھی جرنیلوں کا لگایا ہوا پودا تھے۔ ملک کے سارے الیکٹیبلز جرنیلوں کی مٹھی میں ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف جرنیلوں ہی کا نہیں ان کے سیاسی ایجنٹوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر پاکستان کو ”اسلامی پاکستان“ کیا ”ترقی یافتہ پاکستان“ بھی نہیں بنایا جاسکتا۔قومی سیاسی بحران عروج پر ہے پاکستان کے سیاسی بحران اور ناکام طرز حکمرانی اور عوام کے حالات کی خرابی کا سبب سیاسی اداروں پر عسکری ادارے کی بالادستی اور سیاسی امور میں مداخلت ہے۔ جو دستور اور آئین کے خلاف ہے۔ اس بات پر بھی رائے عامہ میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی قیادت اور سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہے۔ عدالتوں کے اکثر سیاسی فیصلے اسٹیبلشمنٹ کے دباﺅکے تحت ہوتے ہیں۔ جو آئین اور قانون کے خلاف ہیں۔ پاکستان کا آئین توڑنے والے جرنیلوں کا احتساب کئے بغیر ملکی ترقی و خوشحالی اور آئین وقانون کی حکمرانی ممکن نہیں۔