کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر آغا شہاب احمد خان نے انکم ٹیکس حکام کی جانب سے مزید اختیارات کی خواہش اور ٹیکس دہندگان کے 10سالوں کے کیسز دوبارہ کھولنے کی اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔بجٹ2020-21 کی تجاویز میں محکمہ ٹیکس کے حکام نے سفارش کی ہے کہ انہیں انکم ٹیکس آرڈیننس2001کی دفعہ 121کے تحت 5سال کی بجائے 10سال تک کے حسابات کا جائزہ لینے کے احکامات جاری کرنے کا اختیار دیا جائے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے نشاندہی کی کہ کے سی سی آئی کئی برسوں سے ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے کا مطالبہ کررہاہے جو ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کا باعث ہیں اور کاروباری لوگوں کی اکثریت کو ٹیکس ریجم میں رجسٹر ہونے سے روکنے کا سبب بنتے ہیں لہٰذا اس طرح کے اقدامات ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار وسیع کرنے میں بڑی رکاوٹ ہیں جو تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ایک فیصد کے لگ بھگ ہے۔انہوں نے کہاکہ ایف بی آر اور ٹیکسیشن ریجم میں اصلاحات کے بیان کردہ ہدف کے برعکس حکومت کو بجٹ 2020-21 میں اقدامات کرنے کے حوالے سے گمراہ کیا جارہاہے جس سے دستاویزی معیشت کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی اور اس کے نتیجے میں صوابدیدی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جائے گا۔
آغا شہاب نے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو بھیجے گئے ایک خط میں زور دیتے ہوئے کہاکہ وزارت خزانہ ایسا کوئی بھی اقدام کرنے سے گریز کرے جو پہلے سے تباہ حال معیشت اور منفی جی ڈی پی نمو کے لئے مزید اُلٹ ثابت ہو۔اس کے بجائے حکومت ایف بی آر میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لائے، پوری ٹیکسیشن پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، سیلز ٹیکس ایکٹ1990، فیڈرل ایکسائز ایکٹ اور کسٹم ایکٹ میں بے لگام صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ کیا جائے نیزٹیکس قوانین اور قواعدوضوابط میں ترامیم کوفنانس بل کے ذریعے شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے مزید کہاکہ ٹیکس حکام کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ انکم ٹیکس آرڈیننس، سیلز ٹیکس ایکٹ، فیڈرل ایکسائز ایکٹ اور کسٹم ایکٹ وغیرہ میں ہر سال فنانس بل کے ذریعے صوابدیدی اختیارات شامل کروا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ٹیکسیشن اور کسٹمز کی دفعات و قواعد میں کسی بھی قسم کا ردوبدل کو پارلیمنٹ سے الگ الگ بلوں کے ذریعے منظور کیا جانا چاہیے تاکہ قانون میں اس طرح کی بڑی تبدیلیوں سے پہلے پارلیمنٹ اور سینیٹ میں ان پر بحث کی جاسکے۔
آغا شہاب نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکومت ایف بی آر میں ضروری اصلاحات نہیں لاسکی اور اس کی حیثیت وہی برقرار ہے۔ان لینڈ یونیو کے حکام جال پھیلاتے ہوئے فرسودہ ٹیکس دفعات کو سپورٹ کرنے والے مائنڈ سیٹ کی تائید کرتے ہیں اور اب وہ ٹیکس دہندگان کو مزید نچوڑنے کے لیے اور زیادہ اختیارات حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں جن کی تفصیلات پہلے ہی دستاویزات میں موجود ہیں بجائے اس کے کہ وہ غیر دستاویزی اداروں اور بڑے ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اپنی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے کوششیں کرتے۔اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارا انحصار باالواسطہ ٹیکسوں اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے قرضوں پر ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے مشیر خزانہ پر زور دیا کہ وہ ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات کو مزید بڑھانے کی ایسی تمام کوششوں کو سختی سے روکیں اور ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے اور بھتہ خوری پر جواب دہی کو یقینی بنائیں۔