کراچی: عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے 2017 کے سینسز کو قانون تقاضوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئی مردم شماری ضرور ہونی چاہیئے، مگر اس کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن نہ لٹکائے جائیں۔ صوبائی اور وفاق کے زیر دست حکومتیں اپنے مالی مفادات کے باعث لوکل باڈیز الیکشن نہیں کرانا چاہتیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے طول و عرض میں 2017 کی مردم شماری اور ہما جہتی انتخابات پر ایک لمبی چوڑی بحث حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان چھڑی ہوئی ہے۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ 2017 کی مردم شماری قانون کے مطابق نہ تھی اور اخلاقی منشا کے تناظر میں بھی نامناسب تھی۔ اس پر تقریباً اتفاق پایا جاتا تھا۔ چونکہ جولائی 2018 کے الیکشن نزدیک تھے تو پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے یہ طے کیا کہ مردم شماری کے نتائج کو غیر حتمی طور پر تسلیم کرلیا جائے۔ اور ان کو سرکاری گزٹ میں چھاپ بھی دیا جائے۔ تاکہ 2018 کے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہو۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مردم شماری کے نتائج کے حامیوں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اندرونِ خانہ ایک معاہدہ ہوا کہ 5 فیصد سینسز بلاکس پر انتخابات کے بعد ایک عدم ترتیب مشق ہوگی، جس سے یہ پتا چلانے کی کوشش کی جائے گی کہ مردم شماری نتائج کہاں تک درست ہیں اور کس حد تک انہیں درست کرنے کی گنجائش ہے۔ اب تقریباً ڈھائی برس بھی 5 فیصد سینسز بلاکس والی بات پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
اپوزیشن جماعتوں نے اس طرح کے معاہدے کو غالباً قلمبند تو کرلیا لیکن خرابی یہ ہوئی کہ اسے آئین کی شق میں شامل نہیں کیا۔ ادھر حکومت نے مردم شماری کے غیر حتمی نتائج کو حال ہی میں سرکاری طور پر شائع بھی کردیا ہے۔ معاملہ ابھی مشترکہ مفادات کونسل میں جانا ہے۔ لیکن وہاں پر بھی وفاقی حکومت اور حکومتی اتحادیوں کی اکثریت ہے اور وہاں اس کارروائی کو غالباً قبول کرلیا جائے گا۔
حکومت کا اس سلسلے میں مؤقف یہ ہے کہ ہم مقامی حکومتیں تو بنا ہی لیتے ہیں اور اس اثنا میں کوشش یہ کی جائے گی کہ اگلی مردم شماری جلد از جلد کرالی جائے، جس میں پچھلے سینسز کی خامیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب طریقے سے مشترکہ اصولیات متعارف کرائے جائیں۔
جسٹس وجیہ نے واضح کیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 کے تحت صرف قومی اسمبلی کی نشستوں کو آبادی سے متوازن کیا جانا ہوتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں اور لوکل باڈیز الیکشن کے بارے میں یہ ضروری نہیں ہے۔ جب ایک مردم شماری متفقہ طور پر غلط قبول کرلی گئی جو قانونی اور بین الاقوامی قاعدوں کے مطابق غلط بھی تھی، تو اسے دستوری مردم شماری تو کہا جاسکتا ہے لیکن یہ حقیقی سینسز نہیں تھا۔
کیونکہ مردم شماری کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک مقررہ وقت پر کوئی شخص خواہ وہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو، جہاں بھی ہے اس کو گنتی میں لیا جائے گا، ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ سینسز حکام نے صرف ان لوگوں کو گنتی میں لیا جن کے پاس شناختی کارڈ تھے اور شناختی کارڈ بھی اس علاقے کے تھے، جہاں وہ موجود تھے۔
اب پانچ فیصد والی بات تو بہت پیچھے رہ گئی۔ نئی مردم شماری کرانی چاہیئے اور جلد از جلد کرانا چاہیئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردم شمار کے چکر میں علاقائی اور شہری حکومتوں کا الیکشن نہ کرائیں۔ بلدیاتی انتخابات ہر صورت ہونے چاہئیں۔ خود الیکشن ایکٹ 2017 میں کہا گیا ہے کہ لوکل باڈیز کے انتخابات لوکل باڈیز قوانین کے مطابق ہوں گے۔ لہٰذا کسی قسم کی کوئی قباحت شہری یا مقامی انتخابات کے سلسلے میں مردم شماری کی وجہ سے نہیں ہے۔
مردم شماری ایک الگ معاملہ ہے۔ اسے آئین، قانون اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر حل کرنا چاہیئے۔ 2017 کی مردم شماری صحیح معنوں میں کوئی مردم شماری تھی ہی نہیں۔ اور اب تو مردم شماری کی اور بھی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اثنا میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی اضلاع کو خیبر پختون میں شامل کرلیا گیا ہے اور گلگت بلتستان کو ابتدائی آئینی مقام سے تقریباً الگ کرکے صوبائی درجہ دینے کی طرف پیش قدمی ہے۔ لہٰذا جلد از جلد مردم شماری کرانی چاہیئے۔ یہ آبادیوں کے لحاظ سے ہونی چاہیئے۔ اس کا شناختی کارڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتیں جن میں وفاق کے زیر دست حکومتیں بھی شامل ہیں، لوکل باڈیز یا مقامی اداروں کا انتخاب کرانا ہی نہیں چاہتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک معقول رقم ان اداروں کو جاتی ہے اور اگر یہ محکمے نہیں ہوں گے تو پھر صوبائی حکومتوں کو مزید مالی معاملات میں کھلی چھوٹ حاصل ہوگی۔
الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنے ایکٹ کے مطابق کارروائی کریں اور ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہر صوبے کے الگ الگ لوکل گورنمنٹ قوانین کے مطابق شہری انتخابات جلد از جلد کرائیں۔ اس میں کسی قسم کی حد بندی کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل جب کوئی نئی قانونی اور اصولی مردم شماری ہوتی ہے تو حد بندی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وقت سب سے اہم امر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہے۔ نئی حد بندی سے مسائل بڑھیں گے، کیونکہ بچھلی مردم شماری کو کوئی قبول نہیں کرے گا اور نیا سینسز نجانے کب ہوگا۔
لہٰذا الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داری اپنے قوانین کے مطابق پوری کرنی چاہیئے۔ کیونکہ لوکل باڈیز کی عدم موجودگی (اگر وفاقی یا صوبائی حکومت موجود نہ ہو تو) بہت زیادہ سنگین غفلت ہے۔ وقاقی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانے سے کوئی سروکار نہیں، لہٰذا الیکشن کمیشن کو یہ معاملہ وفاقی حکومت کی وزارت قانون وانصاف میں ارسال کرنے کے بجائے اس پر خود فیصلہ کرنا چاہیئے تھا۔