اسلام آباد: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے خبریں ہیں کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کیلئے مقتدر حلقوں کا خصوصی پیغام لے کر لندن پہنچے ہیں۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی اس سے پہلے امریکہ گئے تھے اور وہاں بھی وہ نواز شریف کے ساتھ رابطے میں تھے۔
ذرائع کے مطابق اس امکان کو قطعاً رد نہیں کیا جا سکتا کہ شاہد خاقان عباسی نے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی ٹیم کے بعض افراد سے ملاقاتیں کی ہوں۔ جبکہ امریکہ میں تقریباً 8 دن گزارنے کے بعد گزشتہ دنوں وہ لندن پہنچے جہاں حیرت انگیز طور پر انہیں کورونا ایس او پیز کے تحت 14 روز قرنطینہ میں گزارنے نہیں پڑے۔ ان مراحل سے گزرے بغیر وہ آزادنہ نقل و حمل کر رہے ہیں۔
شاہد خاقان کی اپنی جماعت کے قائد میاں نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات ہو چکی ہے۔ البتہ دوسری ملاقات ابھی ہونا باقی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو لندن میں رہائش بھی میاں نواز شریف نے ہی فراہم کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے شاہد خاقان عباسی لندن مقیم لیگی قائد میاں نواز شریف کے لیے پاکستان کے مقتدر حلقوں کا خصوصی پیغام لے کر پہنچے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس خصوصی اور غیر معمولی پیغام کی وجہ سے ہی حکومت نے شاہد خاقان عباسی کا نام ای سی ایل سے فوری نکالنے کی ہامی بھرلی۔
ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کے ساتھ حالیہ چند ہفتوں کے دوران لیگی رہنماؤں کی ملاقاتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ اسی سلسلے میں خود شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف وغیرہ کی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کو اپنے بیانیے کے بجائے پہلے والے ماحول کی طرف واپس لانا ہے، تاکہ سیاسی مسائل کا کوئی حل نکل سکے اور ملک آگے بڑھ سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف جو اپنے سخت بیانیے کی بنیاد پر مفاہمانہ انداز اختیار کرنے پر تیار تھے نہ ہی موجودہ اسمبلیوں کی بنیاد پر کسی حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بننے کو تیار تھے۔ اب لچک کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا یہ دورہ اسی پیغام کے سبب آسان اور فوری ممکن ہوا ہے جو مقتدر حلقوں کی طرف سے ان کے ذریعے نواز شریف تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس دورے میں شاہد خاقان عباسی پارٹی کی اندرونی حالت، استعفوں کے حوالے سے پارٹی ارکان کی سوچ، ضمنی انتخابات کیلئے ممکنہ ماحول، سینیٹ الیکشن سے قبل استعفوں کی حکمت عملی سمیت قومی اسمبلی میں مجوزہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کی صورت حال پر اپنے نکتہ نظر سے پارٹی قائد کو آگاہ کرنے اور انہیں اعتماد میں لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔