ویسے تو عبدالحفیظ شیخ عملی سیاست سے دور رہتے ہیں اور کئی کئی برس منظر نامے سے غائب رہتے ہیں لیکن جب بھی ملک معاشی بحران میں گھرتا ہے تو یہ اچانک نمودار ہوجاتے ہیں۔ تقریباً دو دہائیوں سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔
واضح رہے کہ عبدالحفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے بانی رہنما غلام نبی شیخ ایڈووکیٹ کے بیٹے ہیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جیالے کا فرزند ایک فوجی آمر کی حکومت کا بھی حصہ رہا۔ مشرف دور کے بعد انہوں نے مشکل وقت میں پیپلز پارٹی کا ساتھ نبھایا اور اب پی ٹی آئی نے بھی انہیں چُن لیا ہے۔
جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے حفیظ شیخ ابتدائی تعلیم سندھ میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ منتقل ہوگئے تھے، جہاں انہوں نے بوسٹن یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس میں داخلہ لیا اور وہاں سے پہلے ایم ایس اور بعد میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ امریکہ میں ہی ہارورڈ یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔
انہوں نے 90 کی دہائی کے آخر میں ہارورڈ یونیورسٹی کو خیرباد کہا اور ورلڈ بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ کچھ عرصے کے بعد انہیں سعودی عرب میں عالمی بینک کے پروگرام کا چیئرمین مقرر کردیا گیا۔ سعودی عرب کے علاوہ وہ دنیا کی ابھرتی معشیتوں سری لنکا، ملائشیا، کویت اور بنگلہ دیش سمیت 25 ممالک میں ورلڈ بینک کے مشیر رہ چکے ہیں، وہ ارجنٹنائن میں نجکاری پر کتاب کے مصنف بھی ہیں۔
حفیظ شیخ نے سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں سیاست میں قدم رکھا۔ 2000 میں انہیں سندھ کا وزیرِ خزانہ مقرر کیا گیا۔ اس عرصے میں وہ سندھ میں محصولات کی وصولیوں میں بہتری لائے اور اسٹیٹ بینک کے اوور ڈرافٹ سے سندھ کو نجات دلائی۔ اس کے بعد انہیں اس وقت کے وزیرِاعظم کا مشیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
2006 میں حفیظ شیخ نے حکومت کو خیرباد کہہ دیا اور اگلے چار برس تک سیاسی میدان سے غائب رہے۔ 2010 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے استعفیٰ دے دیا تو حفیظ شیخ کی دوبارہ واپسی ہوئی اور انہیں مشیر خزانہ کا قلمدان دینے کے ساتھ سینیٹر بھی منتخب کرایا گیا۔ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ دوبارہ بیرون ملک منتقل ہوگئے اور تقریباً 5 برس کے بعد ان کا سیاست میں دوبارہ ظہور ہوا ہے۔