تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

ملک میں شوگر ملز کی تعداد میں کمی

شوگر
  • واضح رہے
  • اپریل 7, 2019
  • 10:39 شام

تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں مجموعی طور پر 51 شوگر ملز کام کر رہی ہیں، جبکہ چند برس پہلے تک ان کی تعداد 52 ریکارڈ کی گئی تھی۔

ملک بھر میں رجسٹرڈ شوگر ملز کی تعداد میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے پاس رجسٹرڈ شوگر ملز کی مجموعی تعداد 51 ہے، جن میں بند ہو جانے والی یا ایک دوسرے میں ضم ہونے جانے والی صنعتیں شامل نہیں ہیں۔

1959ء تک پاکستان میں صرف 4 شوگر ملز کام کر رہی تھی، جن میں سے پنجاب اور خیبر پختون میں دو دو صنعتیں موجود تھیں۔ ایس ای سی پی کی رپورٹ کے مطابق 1960ء سے 1971ء کے دوران شوگر ملوں کی تعداد 14 تک بڑھ گئی تھی۔ اُس وقت پنجاب میں چینی تیار کرنے والے کارخانوں کی تعداد 5، جبکہ سندھ میں 9 تھی۔

1988ء کے اختتام پر شوگر ملز کی تعداد مزید اضافے کے بعد 21 ہوگئی اور سندھ میں شوگر ملز کی تعداد 13 جبکہ پنجاب میں 7 تک جا پہنچی تھی۔ خیبر پختون میں صرف ایک کارخانہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق 1999ء تک چینی تیار کرنے والی ملز کی تعداد 52 تک بڑھ گئی تھی۔ یعنی ایک دہائی کے بعد شوگر ملز کی تعداد دوگنی ہوگئی تھی، جن میں سے خیبر پختون میں ایک، پنجاب میں 25 اور سندھ میں 26 صنعتیں شامل تھیں۔

ایس ای سی پی کے مطابق 2008ء کے بعد سے اب تک ملک میں چینی تیار کرنے والے کارخانوں کی تعداد 51 ریکارڈ کی گئی ہے، جس میں خیبر پختون میں 3، پنجاب میں 29، سندھ میں 17 اور وفاقی دارالحکومت کے علاقہ میں 2 شوگر ملز کام کر رہی ہیں۔ پاکستان چینی کی مقامی طلب سے زائد چینی کی پیداوار حاصل کرتا ہے اور چینی برآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ بھی کماتا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے