ہندوستان کو فتح کرنے والے پہلے نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے 17 برس کی عمر میں پہلی بار براعظم پاک و ہند کے علاقہ سندھ پر قدم رکھا تھا اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنی جرأت، بہادری، حسن سلوک اور دانش و حکمت سے غیر مسلموں کو متاثر کیا۔ کئی ہندو اس کے ان اخلاقی اوصاف سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
اس زمانے میں عرب تاجر خلیج فارس اور بحیرہ عرب کے راستے دور دور تک مالِ تجارت لے جاتے تھے۔ ان تاجروں میں سے بہت سے انہی ممالک میں آباد ہوگئے تھے۔ جزیرہ سراندیپ میں مقیم بعض عرب تاجروں کا انتقال ہوگیا۔ وہاں کا راجہ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ مراسم پیدا کرنے کا خواہشمند تھا۔ اس نے عرب تاجروں کے اہل و عیال کو ایک جہاز کے ذریعے واپس کیا اور ولید بن عبدالملک کے دربار میں پیش کرنے کیلئے قیمتی تحائف بھی دیئے۔
دیبل کے قریب راجہ داہر، حاکمِ سندھ کے سپاہیوں نے جہاز کو لوٹ لیا اور عرب عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرلیا۔ جب اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے گورنر حجاج بن یوسف کو یہ خبر ملی تو اس نے سندھ کے راجہ داہر کو خط لکھا کہ ڈاکوؤں کو سزا دو اور ہمارے قیدیوں کو رہا کر دو اور ان کا مال و اسباب واپس کر دو۔ داہر نے جواب دیا کہ یہ کام سمندری ڈاکوؤں کا ہے، میں اس معاملے میں بے بس ہوں۔
تاریخی روایات میں آتا ہے کہ ان گرفتار شدگان میں سے ایک عورت نے حجاج کو اطلاع دی تھی اور لکھا تھا کہ ہم مظلوموں کی مدد کریں۔ حجاج نے داہر کا جواب ملنے کے بعد خلیفہ سے اجازت لے کر سندھ پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا۔
عبداللہ اسلمی ۶ ہزار کے لشکر سے سندھ پر حملہ آور ہوئے، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ عبداللہ شہید ہوگئے۔ اس کے بعد بدیل بن طہقہ کو بھیجا گیا، لیکن اسے بھی اپنے ۶ ہزار کے لشکر سمیت شکست ہوئی تو حجاج نے اپنے نوجوان اور بہادر بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم، والیٔ فارس کو ۶ ہزار شامی فوج کے ساتھ سندھ مہم پر بھیجا۔
محمد بن قاسم پہلے مکران آئے۔ چند روز وہاں قیام کرکے قنزپور (پنج گور) کی طرف پیش قدمی کی اور اسے فتح کرکے ارمابیل (ارمن بیلہ) کو مسخر کیا۔
نوجوان سپہ سالار ارمن بیلہ کے بعد دیل پہنچ گئے اور جاتے ہی شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اپنی فوج کے آگے خندق کھود کر صف آرائی کی اور منجنیق بھی نصب کر دیئے۔ ان میں وہ مشہور تاریخی قلعہ شکن منجنیق (عروس) بھی تھا، جسے پانچ سو آدمی کھینچتے تھے۔ مسلمانوں نے مدت تک محاصرہ جاری رکھا، لیکن اہلِ شہر برابر مزاحمت کرتے رہے اور نتیجہ کچھ نہ نکلا۔
حجاج کو ان مایوس کن حالات کی اطلاع ہوئی تو اس نے منجنیق سے سنگ باری کرنے کے متعلق ہدایت لکھ کر بھیجی۔ جونہی اس کی تعمیل کی گئی، دیبل کا گنبد ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور اہلِ شہر کی ہمت بھی جواب دے گئی۔
چند سرفروش مسلمان کمند لگا کر فصیل پر چڑھ گئے۔ حاکم نے راہِ فرار اختیار کی اور مسلمانوں نے شہر پر قبضہ کرلیا۔ محمد بن قاسم نے دیبل میں چار ہزار مسلمانوں کو آباد کیا اور ایک جامع مسجد بھی تعمیر کرائی۔
دیبل سے محمد بن قاسم نے نیرون کی طرف پیش قدمی کی۔ وہاں کے راجہ نے صلح کرلی۔ گراں بہا تحائف پیش کئے اور مسلمانوں کی بہت خاطر مدارات کی۔ نیرون کے بعد محمد بن قاسم یلغار پر یلغار کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور راستے میں آنے والے مقامات کو مسخر کرتے چلے گئے۔
حتیٰ کہ ایک دریا کو عبور کرکے سربیدس (شری ویدس) پر چڑھائی کی، وہاں کے حاکم نے خراج ادا کرکے صلح کرلی۔ اب محمد بن قاسم دریائے سندھ کی طرف بڑھے اور تھوڑی سی فوج سے سیوستان (سہوان) کو فتح کرنے کیلئے روانہ کی۔ وہاں کے باشندوں نے خراج پر اطاعت قبول کرلی۔
دریائے سندھ کو عبور کرکے محمد بن قاسم راجہ داہر کے علاقے میں پہنچ گیا۔ راجہ داہر ۶۰ ہزار سپاہیوں کی فوج کے ہمراہ، جس میں جنگی ہاتھی بھی تھے، مقابلے کیلئے موجود تھا۔ طرفین میں خونریز معرکہ ہوا، جس میں راجہ داہر مارا گیا اور ۲۰ جون ۹۳ھ/۷۱۲ء کو محمد بن قاسم نے فتح کا پرچم لہرایا۔
اس کے بعد محمد بن قاسم شہر پر شہر فتح کرتا چلا گیا اور راور، برہمن آباد، ساوندری، بسمند اور رور کو زیر نگیں کیا۔ اس مہم میں بہت سے کفار و مشرکین نے اسلام قبول کیا۔ فاتح مسلمانوں نے انتہائی رواداری سے کام لیتے ہوئے بُت خانوں سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا۔
رور میں ایک جامع مسجد تعمیر کی گئی۔ رور سے چل کر محمد بن قاسم نے سکہ پر قبضہ کیا۔ پھر وہ ملتان پہنچے۔ وہاں کے راجہ گور سنگھ نے مقابلہ کیا لیکن شکست کھا کر قلعہ بند ہوگیا۔ مسلمانوں نے محاصرہ کرلیا اور اہلِ شہر نے مقابلہ میں شکست کھائی۔
ملتان بدھوں کا مشہور تیرتھ تھا۔ اس لئے یہاں کے مندر میں سونے چاندی کا ہُن برستا تھا۔ یہ ساری دولت مسلمانوں مسلمانوں کے قبضے میں آئی۔ بلاذری کا قول ہے کہ ۱۸ گز لمبا اور ۱۰ گز چوڑا کمرہ سونے سے بھرا ہوا تھا۔ اس لئے عرب ملتان کو ’’سونے کی کان‘‘ کہنے لگے۔
اس دوران اطلاع ملی کہ حجاج بن یوسف کا انتقال ہوگیا ہے (۹۵ھ/ ۷۱۴ء)۔ اس کے بعد محمد بن قاسم نے بیلمان، سرشت اور کیرج کو یکے بعد دیگر فتح کیا۔ اسی اثنا میں ولید بن عبدالملک کا بھی انتقال ہوگیا۔
ولید کے بعد سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوا۔ اس نے محمد بن قاسم کو معزول کردیا اور یزید بن ابی کبشہ کو عاملِ سندھ مقرر کر دیا۔ عراق کے والی صالح بن عبدالرحمٰن کے حکم پر محمد بن قاسم کو زنجیروں میں جکڑ کر واسط بھیجا گیا۔
حجاج نے صالح کے بھائی آدم خارجی کو قتل کیا تھا، صلاح نے اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ محمد بن قاسم سے لیا۔ جیل میں قید کر دیا اور وہاں ہی تکالیف و مصائب کی سختیوں سے ۹۸ھ/ ۷۱۷ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔