جس طرح انسان کو زندہ رہنے کیلئے ہوا، پانی، مٹی و دھوپ اور خوراک کی ضرورت ہے اور ان کے بغیر انسان کی بقا ناممکن ہے۔ اسی طرح انسان کے ذہنی و روحانی و اخلاقی اصلاح ترقی و تسکین کیلئے تعلیم بہت ضروری ہے۔
تعلیم کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ زمانہ جاہلیت کے بعد ہر تہذیب اور معاشرے میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کل تعلیم کے حصول پر تو بہت زور دیا جا رہا ہے، مگر عمل پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ بلکہ معاشرہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اخلاقی انحطاط کا شکار ہے۔
بہرحال اس بڑھتی ہوئی خرابی کے باوجود تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ اس سے آج تک کوئی انکار کر سکا ہے نہ ہی آنے والے وقت میں کر سکے گا۔ تعلیم انسان کا زیور ہے۔ یہ انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہے اور اسے معاشرے میں ایک اچھی و خوشگوار زندگی گزارنے کے آداب سکھاتی ہے۔
تعلیم ہی وہ موثر ذریعہ ہتھیار ہے، جس کے بغیر ترقی کا کوئی تصور نہیں۔ تاہم تعلیم کا مقصد صرف روایتی تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے یا اس کا مقصد محض کسی فرد کی ذاتی اصلاح نہیں بلکہ اس کے وسیع مقاصد ہیں۔
تعلیم کا مقصد جہاں معاشرتی، قومی و سیاسی ترقیوں کا حصول ہے، وہیں بنی نوع انسان کی خیر و بھلائی اور پورے انسانی تمدن کی روحانی ترقی بھی تعلیم کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔ اس کے چند اہم نکات پیش خدمت ہیں:
1۔ تعلیم نہ صرف ایک انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتی ہے اس کی ذہنی، جسمانی، روحانی و اخلاقی مدد کرتی ہے بلکہ یہ ایک فرد کو اچھا شہری بننے میں بھی مدد دیتی ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے یہ شعور ملتا ہے کہ ایک اچھا شہری کس طرح بنا جا سکتا ہے۔ ایک اچھے شہری میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں۔ ایک اچھے شہری کے کیا فرائض ہوتے ہیں۔ اور اس کے حقوق کیا ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
2۔ تعلیم ایک انسان کو اچھے بُرے میں تمیز کرنا سکھاتی ہے۔
3۔ احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے۔
4۔ تعلیم ہی انسان کو عدل و انصاف و مساوات سکھاتی ہے۔
5۔ انسان میں ایثار و قربانی، ہمدردی و محبت جیسے جذبات پیدا کرتی ہے۔
6۔ تعلیم ہی انسان کو رواداری کا درس دیتی ہے، درگزر کرنا سکھاتی ہے۔
7۔ تعلیم ہی وہ موثر ذریعہ ہے جس سے انسان میں وسعت نظری پیدا ہوتی ہے۔
8۔ تعلیم سے ہی انسان ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتا ہے۔
پس تعلیم ہے تو ترقی ہے خوشحالی ہے اور تعلیم نہیں ہے تو ترقی ہے نہ خوشحالی ہے نہ ادب ہے نہ احترام ہے نہ ہمدردی ہے نہ مروت ہے نہ محبت ہے نہ ایثار و قربانی کا جذبہ ہے نہ وسعت نظری ہے۔
موجودہ دور میں دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اعلیٰ شہریت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ جہالت ہے اور یہ جہالت کسی بھی فرد کی کامیابی و ترقی و خوشحالی کی راہ میں حائل ہے۔ ایک جاہل انسان نہ تو معاملات کا درست ادراک کر سکتا ہے اور نہ ہی اس میں وسعت نظری پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ جلد ہی نسلی، گروہی اور علاقائی تعصبات کا شکار ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان عناصر کے نقصانات سے واقف نہیں ہوتا۔
تعلیم نہ صرف انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتی ہے۔ اس کی شخصیت و سیرت کی تعمیر کرتی ہے۔ معاشرے میں رہنے کے آداب سکھاتی ہے بلکہ ترقی کی راہیں تلاش کرنے میں بھی مدد دیتی ہے حصولِ معاش کے ذرائع و راستے بھی دکھاتی ہے۔
یہ تعلیم ہی ہے جو ایک فرد کو عزت و شہرت کی بلندیوں پر لے جاتی ہے، جینے کے ڈھنگ سکھاتی ہے۔ مادی ضروریات کی تکمیل کے راستوں سے روشناس کراتی ہے۔ لہٰذا تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کو عام کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ سہولیات و مواقع فراہم کرے، کیونکہ موجودہ دور میں تعلیم معاشی ترقی کیلئے بھی ایک بنیادی شرط ہے۔ تعلیم کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے بھی تعلیم کے فروغ کے ذریعے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
واضح رہے پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ مفت تعلیم بچوں کا بنیادی حق ہے۔ آئین کی شق 25 اے کے مطابق 5 سے 16 سال کے عمر تک کیلئے تعلیم مفت اور لازمی ہوگی۔ بدقسمتی سے ملک میں خصوصاً پسماندہ صوبے بلوچستان اور سندھ میں بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت صوبائی حکومتوں کی ترجیح میں شامل نہیں۔