سکندر حیات حافظ آباد کا رہاٸشی تین بچوں کا باپ تھا۔اپنے بیوی بچوں کیساتھ پُرسکون زندگی گزار رہا تھا۔اگست 2013 کو اچانک بیٹھے بیٹھے اُسکے ذھن میں خیال آیا کہ ایسا کونسا کام کیا جاۓ کہ پورے پاکستان کے لوگوں کو اپنے طرف متوجہ کیا جاۓ۔اپنے مطالبات پیش کٸے جاۓ۔شہرت بھی مل جاٸیگی اور اقتدار کے ایوانوں میں موضوع بحث بھی بن جاٸنگے۔سکندر کے پاس دو راستے تھے۔ایک یہ کہ وہ کوٸی ایسا کارنامہ سرانجام دے جس سے اقوامِ عالم میں پاکستان کا سر فخر سے بلند ہو۔اور دوسرا ھتیار اُٹھا کر شارٹ کٹ کا استعمال کر کے اپنے مطالبات منواۓ۔سکندر نے دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس مقصد کیلٸے سکندر نے شہرِ اقتدار اسلام آباد کا انتخاب کیا۔اور مسلح ہو کر اپنے بیوی بچوں کو ڈھال بناتے ہوۓ حکومت کو عجیب و غریب قسم کے مطالبات پیش کٸے۔5 گھنٹوں تک وہ شہرِ اقتدار کو اپنے انگلیوں پر نچاتا رہا۔کبھی وزیر داخلہ کو بلانے کی فرماٸش کرتا رہا اور کبھی اسلام آباد پولیس کے آٸی جی کو اپنے سامنے پیش ہونے کا مطالبہ کرتا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ سکندر کے مطالبات کی فاٸل کہیں ہر بھی نہ رکی۔مطالبات اگر منظور نہ ہوۓ تو کم از کم 5 گھنٹوں تک پورے پاکستان کے عموماً اور اسلام آباد کے باسیوں کے خصوصاً اعصاب کا امتحان لیتا رہا۔
دوسری طرف جواد احمد جو میرا کلاس فیلو تھا۔غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔۔تعلیمی سفر شاندار تھا۔ لیکچرار بننے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔اور اسکی وجہ اپنے ایک کالج پروفیسر سے اسکا متاثر ہونا تھا۔ جواد کی قسمت اچھی تھی جیسے ہی یونیورسٹی سے فارغ ہوۓ پبلک سروس کمیشن کے زریعے260 لیکچرارز کی بھرتی کا اشتہار آیا۔جواد نے ایپلاٸی کیا۔ٹیسٹ دیا۔اچھے نمبروں سے پاس ہو کر انٹرویو کیلٸے شارٹ لسٹ ہوۓ۔
جواد احمد کے خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے بلکل قریب تھی کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے عارضی طور پر لٸے گۓ 700 کے قریب ٹیچنگ اسسٹنٹس کو مستقل کرنے کیلٸے اسمبلی سے بل پاس کر دیا۔اور جواد احمد سمیت 260 امیدواروں کو کہا گیا کہ چونکہ ہم نے ٹیچنگ اسسٹنٹس کو مستقل کیا اور ہمارے پاس مزید خالی پوسٹیں نہیں ہیں اسلٸے پبلک سروس کمیشن کا جاری کردہ اشتہار نمبر 06/2017 واپس لیتے ہیں۔اس فیصلے سے جواد احمد سمیت 260 امیدواروں کے پاٶں تلے زمین کسک گٸی کہ بھرتی کا تقریباً 80 فیصد مرحلہ مکمل ہو چکا تھا۔اسکے علاوہ اقلیتی امیدواروں کے ریکمینڈیشن بھی ہو چکی تھی۔
اس سٹیج پر بھرتی کا عمل ختم کرنا ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سمجھ سے باہر تھی۔تعلیم ہی کی بدولت متاثرہ امیدواروں نے قانونی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور انصاف کے حصول کیلٸے2017 میں پشاور ہاٸیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔تین سال ہو گٸے لیکن کبھی پبلک سروس کمیشن کا نماٸندہ غیر حاضر ہوتا ہے،کبھی وکلا ہڑتال پر ہوتے ہیں اور کبھی کیس کے سماعت کے عین موقع پر جج کی نانی وفات پا جاتی ہے۔اور اسی طرح صوبے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو تین سال سے در در کے ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا گیا۔ تین سال گزرنے کے بعد خیبر پختونخواہ ہاٸر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں پروموشنز بھی ہوۓ اور فنانس ڈیپارٹمنٹ سے مزید پوسٹوں کی منظوری بھی آچکی ہے۔لیکن کیس عدالت میں زیر سماعت ہونے کیوجہ پبلک سروس کمیشن ان خالی پوسٹوں کو مشتہر نہیں کر سکتا۔اسکے علاوہ کالجز میں سینکڑوں اسامیاں عرصہ دراز سے خالی ہونے کیوجہ سے طلبأ کا قیمتی وقت ضاٸع ہو رہا ہے۔
قارٸین! ایک طرف سکندر ذیشان جس نے اپنے مطالبات منوانے کیلٸے جس غلط راستے کا انتخاب کیا پوری ریاست کی مشینری اسکے آگےدست بدستہ کھڑی بے بسی کی تصویر بنی رہی۔اسکی فاٸل ”موسٹ ارجنٹ“ کا ٹیگ لٸے سیکشن آفیسر سے لیکر وزیراعظم تک ہر رکاوٹ کامیابی سے عبور کرتی رہی۔
اور دوسری طرف جواد احمد جیسے سینکڑوں تعلیم یافتہ نوجوان جب اپنے جاٸز حق کیلٸے حکومتی تعاون کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت قانونی راستہ اختیا کرے تو اسکو ذہنی طور پر اتنا ٹارچر کیا جاتا ہے کہ اسکو تعلیم نامی چیز سے نفرت ہو جاتی ہے۔میری وزیر اعظم جناب عمران خان،چیف جسٹس پشاور ہاٸیکورٹ،اپوزیشن جماعتوں،وزیر اعلی محمود خان اور پی ٹی آٸی کی خیبر پختونخواہ حکومت جو نوجوانوں کا نماٸندہ حکومت کہلانا پسند کرتی ہے سے درخواست ہے کہ آپ 260 لیکچرارز کے فاٸل کو کب ”موسٹ ارجنٹ“ کا درجہ دے کر غریب تعلیم یافتہ نوجوانوں پر رحم کرینگے؟اور حقیقی معنوں میں عوام کی نماٸندگی کا حق دار ٹھراٸنگے؟ورنہ دوسری صورت میں یہ 260 تعلیم یافتہ نوجوان سکندر بن کر ریاست کے خلاف ھتیار اُٹھانے پر مجبور ہو جاٸنگے۔