س: نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں دینی کام کیلئے آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ہمیں کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر میں سنت لباس پہننے سے گھبراؤں اور یہ سوچوں کہ یہ یہاں کے عوام کیا کہیں گے تو باہر جا ہی نہیں پاؤں گا، اس کا سارا دار ومدّار ہماری اپنی سوچ پر ہے۔ سنت لباس کی بدولت اللہ تعالیٰ ان کے دل میں ہمارے لئے عزت و قدر بھی لے آتا ہے۔ آپ کو ایک واقعہ بتاتا چلوں کہ ایک بار میں آسٹریلیا میں ایک دکان پر خریداری کر رہا تھا، وہاں مجھے تھوڑی دیر ہوگئی، اس اثنا میں ایک سیلز گرل میرے پاس آئی اور کہنے لگی وہ دروازے پر کھڑے صاحب (سفی دفام) آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں اس آسٹریلین سے ملا تو اس نے پوچھا آپ نے یہ لباس کہاں سے خریدا۔ کیا یہ یہاں ملتا ہے۔ میں نے کہا جی ملتا ہے۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ شاید میرے ساتھ چھیڑ خانی کر رہا ہے۔ بہرحال میں نے اسے بتایا کہ سڈنی میں شلوار قمض ملتی ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ نہیں جاسکتے تو میں آپ کو منگوا دوں گا۔ میں نے اس کو اپنا نمبر دے دیا۔ میں جب گھر پہنچا تو اس کی بیٹی کا فون آیا اور پوچھنے لگی کہ آپ کہاں رہتے ہیں ہم آپ کو شلوار قیمض کیلئے ادائیگی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گھر آئے اور پیسے دے کر چلے گئے۔ بعدازاں میں نے انہیں شلوار قمیض لاکر دیا اور وہ بہت خوش ہوئے۔ انہیں شلوار قمیض بہت پسند تھا۔ تو یہ بات اللہ نے اس کے دل میں ڈالی۔ لہٰذا اس سے گھبرانا کہ جو لباس ہم پہنتے ہیں وہ یہاں کے لوگوں کو پسند نہیں تو یہ ہماری اپنی سوچ ہے۔ دوسری جانب اگر مجھ پر کسی نے ٹوپی پہننے کی وجہ سے ہوٹنگ کی بھی تو یہ وہ لوگ ہیں جنہیں معاشرے میں کوئی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ سارے جسم پر ٹیٹو بنے ہوتے ہیں، کان جگہ جگہ سے چھدا ہوا ہے۔ لہٰذا اس سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔ الحمداللہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں، میں جس ماحول میں ہوں وہ بہت آزاد ہے۔
میں جب آسٹریلیا میں تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکہ عراق پر بمباری کیلئے تیار بیٹھا تھا، اس زمانے میں سڈنی سے 6 گھنٹے کی مسافت پر ایک چھوٹے ٹاؤن میں تھا وہاں ایک مذبح خانہ تھا جہاں میں گائے اور بھیڑیں ذبح کرنے جاتا تھا۔ میں اسی ٹاؤن میں 10 مہینے رہا، جس کی آبادی پانچ سے چھ ہزار تھی۔ اور سارے گورے تھے۔ شاید وہاں کوئی مسلمان بھی نہیں تھا۔ میں کیروان پارک میں جاکر ٹھہرا اور جب میں باہر نکلتا تھا تو لوگ مجھے بڑے غور سے دیکھتے تھے۔ ان دنوں مسلمانوں کیخلاف ایک ماحول بنا ہوا تھا۔ ایک روز ایک شخص مجھے آواز دیتا ہوا آیا اور کہا کہ آپ یہاں نئے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کہاں رہتے ہیں، میں اور میری بیوی آپ سے آپ کے گھر پر ملنا چاہتے ہیں، کیا یہ ممکن ہوگا۔ میں نے کہا کہ جی آپ ضرور آئیں۔ اگلے دن وہ میرے گھر پہنچا اور پوچھا کہ میڈیا میں آج کل اسلام سے متعلق جو چل رہا ہے میرا دل کہتا ہے کہ اس میں کوئی کنفیوژن ہے۔ میں اپنی بیوی سے بھی اس حوالے بات کرتا تھا اور ہم دونوں کی خواہش تھی کہ اسلام کے بارے میں جاننا چاہئیے۔ آپ یہاں نظر آئے تو ہم نے سوچا آپ سے ملیں۔ آپ ہمیں اسلام کے بارے میں بتائیں۔ میں نے انہیں اسلام سے متعلق تفصیل سے بتایا اور ان کے کچھ سوالات تھے ان کا بھی جواب دیا۔ ایک سوال پر میں نے کہا کہ ہمارے پاس اسلام مخالف میڈیا کا صرف ایک ہی توڑ ہے اور وہ دعا ہے، جس پر وہ بہت متاثر ہوئے۔ بہرحال وہ مطمئن ہوکر میرے گھر سے گئے۔ جاتے ہوئے اس نے کہا کہ کل تک میں آپ کو نہیں جانتا تھا، آج ہم ایک دوسرے کو تھوڑا بہت جان گئے ہیں تو اب میں آپ کو اپنا دوست کہہ سکتا ہوں۔ میں نے اس پر شکریہ کیا۔ اس نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ روٹری کلب کا خزانچی ہے اور اس کا نام جمی باربر ہے۔ جاتے جاتے وہ مجھے سینٹ پیٹرز ڈے کی دعوت بھی دے گیا اور کہا کہ اس موقع پر سینکڑوں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ علاقے کا میئر بھی آئے گا، آپ وہاں ہمارے مہمان خصوصی ہوں گے۔ میں نے کہا کہ میں آ تو جاؤں گا مگر کچھ کھا نہیں سکوں گا۔ وہ سمجھ گیا اور کہا آپ بے فکر رہیں آپ جہاں حلال جانور ذبح کرتے ہیں ہم سارے جانور وہیں سے ذبح کرائیں گے اور ہم سب وہ ہی کھائیں گے۔ پھر میں نے ہامی بھرلی اور سینٹ پیٹرز ڈے کے اجتماع میں گیا۔ یہاں یہ بتا دوں کہ جمی نے مجھے ایک مختصر سا خطاب کرنے کو بھی کہا تھا۔ جب میں اسٹیج پر گیا تو لوگوں نے بھرپور تالیوں میں میرا استقبال کیا۔ میں نے خطاب شروع کرتے ہوئے کہا کہ میں مسلمان ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں نہ میری جیب میں کوئی ہینڈ گرینیڈ نہیں ہے اور نہ میں کسی میڈیا سے وابستہ ہوں۔ آپ کو صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ مسلمان ہونے کے ناطے میں یہاں گائے بھیڑوں کو ذبح کرنے کیلئے آیا ہوں، تاکہ وہ ایکسپورٹ ہوسکیں اور یوں میں بہت فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں محنت کرکے اس ملک کی معیشت میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کر رہا ہوں۔ بس یہ چند الفاظ کہے تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ بعد ازاں میئر بھی میرے پاس آیا اور احترام میں جھکا۔ پھر اپنا کارڈ دیا اور کہا کہ میں آپ سے صرف ایک کال کی دوری پر ہوں، میرے لائق کوئی بھی کام ہو آپ کبھی بھی مجھے فون کرسکتے ہیں۔
س: آپ نیوزی لینڈ میں کس مقام پر رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں اور کرائسٹ چرچ آپ سے کتنا دور ہے؟
ج: ہم نارتھ آئی لینڈ میں ہیں۔ نیوزی لینڈ کے دو آئی لینڈ ہیں۔ دوسرا سائوتھ ہے۔ کرائسٹ چرچ جنوب آئی لینڈ میں ہے۔ جبکہ ہم شمال میں ہیں۔ ہمارے یہاں سے کرائسٹ چرچ کافی دور ہے۔ تقریباً ساڑھے 7 گھنٹے کا راستہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کرائسٹ چرچ حملہ انتہائی بزدلانہ اور سفاکانہ ہے۔ یہ ایک انفرادی کارروائی ہے۔ اس سے کسی کمیونٹی، مذہب اور گروپ کا تعلق نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس کارروائی کسی سے بھی جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ صلیبی جنگوں اور مسلم کمانڈرز کے نام لکھ کر وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اسے پشت پناہی حاصل ہے، مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
س: نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں آپ کو تلاوت قرآن کیلئے مدعو کیا گیا، اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج: پارلیمنٹ میں تلاوت کی وجہ تو اللہ کا حکم ہی ہوا۔ جمعے کے دن یہ واقعہ ہوا تو اگلے روز کیوی وزیر اعظم ویلنگٹن میں واقع ہمارے سینٹر میں تشریف لائیں، سب سے بڑے اسلامک سینٹر میں آکر ہم سے اظہار یکجہتی کیا اور انہوں نے مجھے اشارتاً بتا دیا تھا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس مسلمانوں کی دعا سے شروع کیا جائے، اسپیکر اسے آرگنائز کررہے ہیں۔ اسپیکر نے انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ (ایمان) کے صدر طاہر نواز سے کہا کہ آپ آئیں اور پارلیمنٹ میں آکر دعا کرائیں۔ انہوں اسپیکر سے خصوصی درخواست کی کہ ہمارے امام صاحب کو ضرور بلائیں۔ مجھے ان کا فون آیا کہ آپ نے پارلیمنٹ میں تلاوت کرنی ہے۔ تو پھر میں نے آیات صبر پڑھی کہ موقع وہی تھا۔
س: سفاکانہ حملے کا وہاں کے مسلمانوں اور دوسرے افراد پر کیا اثر پڑا؟ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم، حکومت اور معاشرے کو آپ نے کیسا پایا؟
ج: اگر میں اس طرح شروع کروں کہ مسلمانوں کی جو گھڑی نائن الیون کے بعد سے الٹی چلنی شروع ہوگئی تھی اللہ تعالی نے ان 50 نمازیوں کی شہادت کے وقت سے اسے دوبارہ سیدھا کر دیا۔ مسلمانوں کا جو وقار لوگوں کے دلوں سے نکل چکا تھا الحمد اللہ اس واقعے کے بعد سے اللہ نے وہ بحال کرنا شروع کردیا اور پوری دنیا میں محبت ملی، ہر طرف سےاظہار یکجہتی کے پیغام آئے۔ اب اتنی محبت ہے کہ وزیر اعظم نے 2 منٹ کی خاموشی کا اعلان کیا اور اس دن ساری عورتوں نے اپنے خیالات و رجحان کے برخلاف دوپٹہ اوڑھے، نیوز اینکرز تک نے دوپٹے اوڑھے، میری مسجد سمیت تمام مساجد میں ایک بڑی تعداد نے مسجدوں کے گرد ہاتھوں کی زنجیر بناکر گھیرا باندھ لیا اور یہ تاثر دیا کہ ہم ہاتھوں میں ہاتھ لئے آپ کی حفاظت کر رہے ہیں۔ آپ بلا خوف و خطر دھڑک ہو کر اپنی عبادت کریں، ہم شرمندہ ہیں کہ نیوزی لینڈ جیسی سرزمین پر آپ کے ساتھ ایسا ہوگیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘ہم آپ ہیں اور آپ ہم ہیں’’۔ غرض کہ مسلمانوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ میں اس وقت خطبے میں تھا اور میں محسوس کر رہا تھا کہ لوگ پریشانی میں بار بار اپنے موبائل دیکھنے رہے ہیں اور اٹھ اٹھ کر باہر جا رہے ہیں تو مجھے احساس ہوا کہ شاید کوئی مسئلہ ہے۔ اس وقت تو یہ تھا کہ خدا کرے کوئی گڑبڑ نہ ہوئی ہو لیکن تھوڑی دیر میں خبر میڈیا میں آگئی۔ اس کے بعد حکومتی مشینری ایسی حرکت میں آئی کہ اسپیشل پولیس نے مساجد کو دفاعی حصار میں لے لیا اور بڑے نرم انداز میں یہ درخواست کی کہ مساجد کو اس وقت خطرہ ہے، اس لئے حفاطتی اقدامات کے طور پر مساجد بند کی جاسکتی ہیں تو بند کردیں ہم پوری چھان بین کرکے جلد کھول دیں گے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے اور ایک دن کے بعد انہوں نے خود مساجد کھول دیں۔ اس سے اگلے دن ہی وزیر اعظم صاحبہ یہاں آئیں اور ہم سے ہمدردی کا اظہار کیا، بڑے دل ٹوٹے ہوئے تھے۔ اگلے دن وہ کرائسٹ چرچ چلی گئیں اور وہاں جس طرح انہوں نے باتیں کیں، ٹوٹے دلوں کو جوڑا، زخموں پر مرہم رکھا اور بہت ہی اچھے طریقے سے انہوں نے حالات کو سنبھالا۔ آج نا صرف نیوزی لینڈ بلکہ پوری دنیا میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی بے حد قدر ہے۔ یہاں اتنا فرق آگیا کہ گزشتہ دنوں میں ایک اسٹور میں گیا، ایک صاحب میرا حلیہ دیکھ کر میرے پاس آئے، میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ ‘‘ہمیں بہت شرمندگی ہے، بہت معذرت جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کرائسٹ چرچ میں ہوا’’ تو میں نے کہا کہ نہیں بس ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے معاملات آسان فرما دے۔
س: 22 مارچ کو نیوزی لینڈ میں اس واقعے کی نسبت سے ایک دن منایا گیا؟ آپ نے بھی ایک بڑا اجتماع آرگنائز کیا۔ اس سے متعلق کچھ ارشاد فرمائیں؟
ج: جی ہاں تعزیتی اجتماعات ہوئے، ڈاؤن ٹاؤن میں بھی ہوا، آذان کا اہتمام کیا گیا، اس دن پورے نیوزی لینڈ میں ریڈیو پر آذان براڈ کاسٹ کی گئی۔ یہاں جمعہ کے اجتماع میں ہمارے ہاں بہت سارے سفیر، حکومتی عہدیدار، کمپنیوں کے مالکان آئے اور انہوں نے اس واقعہ پر شدید دکھ کا اظہار کیا۔ جو جمعہ کا خطبہ میں نے دیا تھا کہ اس کی بڑی پزیرائی ہوئی۔ چونکہ پارلیمنٹ کے اجلاس کی کارروائی اس روز تلاوت قرآن پاک سے ہوئی اور الحمد اللہ یہ تاریخ میں رقم کر رہا تھا تو اس کے بعد سے یہاں فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ میں جتنے دوسرے مذاہب کے لیڈر آئے ہوئے تھے وہ سب جمعہ کو ہمارے پاس آئیں گے اور ہماری عبادت دیکھیں گے۔ لہٰذا ان کیلئے ایک جگہ مختص کی گئی اور وہ وہاں بیٹھے۔ تو اسی مناسبت سے ہم نے خطبہ دیا:
"اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ لا ینھی کم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرو ا وتقسطو الیہم۔ان اللہ یحب المقسطین۔ صورۃ ممتحنہ 7.8آیۃ
''اللہم انصر لاخواننالمسلمین المستضعفین فی کل مکان یا رب العالمین ۔اللہم یا حی یا قیوم یا من بیدہ ملکوت کل شئی انت تعلم ما حل باخوانناو اخواتنا فی کرائسٹ چرچ،اللہم ارحم شہدائنابرحمۃ واسعۃ من عندک یا رب العالمین برحمتہ وہو الرحم الراحمین۔والحمد للہ رب العالمین۔اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ واعبداللہ ولا تشرکو بہ شیئ و بالوالدین احساناو بذی القربی و الیتیمی والمساکین و جارذی القربی ۔۔وابن السبیل۔''
تو یہ خطبہ میں نے دیا اور بڑا زبردست پیغام گیا۔ الحمد اللہ لوگوں نے بڑا فیڈ بیک دیا، یہاں کمشنر و مئیر آئے ہوئے تھے، ان کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے، عیسائی، بدھ مت، سکھ، ہندووں کے رہنما آئے ہوئے تھے۔ سب نے اسے خوب غور سے سنا اور سمجھا۔
لنک: عہد ساز شخصیت مولانا نظام الحق تھانوی کا پہلا انٹرویو (حصہ اول)
اور: عہد ساز شخصیت مولانا نظام الحق تھانوی کا انٹرویو (آخری حصہ)