ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کے لئے کورونا وائرس کی وجہ سے جاری بحران میں بجٹ بنانا بہت مشکل ہوگا۔ روایتی بجٹ شرح نمو بڑھانے میں ناکام رہے گا اورعوام کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ کرے گا اس لئے اس بارغیر روایتی بجٹ بنایا جائے۔ بجٹ میں ٹیکس بڑھانے کے بجائے شرح نمو بڑھانے کو ترجیح دی جائے تا کہ ایک کروڑ 80 لاکھ لوگ بے روزگار ہونے سے بچ سکیں اور غربت میں کمی آئے۔
میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ معیشت کی دستاویز بندی بہت اہم ہے مگر اس کی لاگت میں کمی اس سے بھی زیادہ ضروری ہے جس کے لئے ٹیکس کے نظام کو سادہ اور عام فہم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی اور روزگار کا راستہ کھلے۔ کئی دہائیوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود ٹیکس اور اخراجات میں توازن قائم نہیں کیا جا سکا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو کشکول اٹھانا پڑتا ہے۔ کشکول توڑنے اور ملکی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لئے عوام پر ٹیکس بڑھانے کی پالیسی تبدیل کر کے ڈائریکٹ ٹیکس کے نظام کو اپنانا ہو گا۔ زیادہ ٹیکس کے بجائے عوام کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں جبکہ ٹیکس حکام کی جانب سے سسٹم میں تبدیلی نہ لانے کے وجہ سے پوٹینشل سے بہت کم ٹیکس جمع ہو رہا ہے، جسے بڑھانے کے لئے ٹیکس کے نظام کو سادہ بنانا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی غربت کو روک کر عوام کی حالت بہتر بنانا ہوگی جو عوام کو ہنر مند بنائے بغیر نا ممکن ہے۔ عوام کو غربت سے نکالنے کے لئے چین اور دیگر ممالک کی مثالیں دینا کافی نہیں، اس کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے جس میں تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، مناسب ٹرانسپورٹ، پنشن، انکم سپورٹ، تحفظ، سہولیات اور دیگر شعبوں میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی جو ٹیکس کے منطقی نظام کی غیر موجودگی میں ناممکن ہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ جو کاروبار موجودہ صورتحال میں دیوالیہ ہونے سے بچ گئے ہیں انہیں ٹیکس کے منصفانہ نظام، کم شرح سود، بجلی اور گیس کے جائز بلز،بیل آئوٹ اور ریلیف کی ضرورت ہے تاکہ وہ عوام کو روزگار فراہم کرتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ برآمدی شعبہ کے لئے زیرو ریٹنگ کی سہولت بحال کی جائے اور ایک لاکھ روپے ماہانہ تک کمانے والوں کے لئے بھی زیرو ٹیکس نافذ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پرانے قرضوں کی واپسی میں نرمی، سود میں کمی جبکہ بیمار صنعتوں کی بحالی بھی ضروری ہے جبکہ ودھولڈنگ اور دیگر ٹیکسوں میں خاطر خواہ کمی بھی لازمی ہے ورنہ معیشت کا پہیہ نہیں چل سکیں گے۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرے، سفید ہاتھی بن جانے والے ناکام اداروں سے جو سالانہ 6سو ارب روپے ڈکار جاتے ہیں سے جان چھڑائے، انفراسٹرکچر منصوبے شروع کرے اور اپنا حجم کم کرے اور زرعی ٹیکس کی جانب پیش رفت کرے۔