پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن نے انڈسٹری آل گلوبل یونین کے تعاون سے کان کنی کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کیلئے ”جاب ٹریننگ ان سیف مائننگ ورکشاپ“ کا انعقاد کیا ۔ کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں منعقد کی جانے والی دوروزہ ورکشاپ میں انڈسٹری آل گلوبل یونین کے پراجیکٹ کوآڈی نیٹر برائے پاکستان تنویر نذیر،پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلطان محمد خان، مرکزی چیئرمین عبدالستار، مرکزی فنانس سیکرٹری عبدالستار جونیئر،انفارمیشن سیکرٹری منظور احمد بلوچ،رجسٹرارٹریڈ یونین بلوچستان محمد نعیم ،ممبرنیشنل کمیشن ہیومن رائٹس بلوچستان فرخندہ اورنگزیب ،آل پاکستان لیبر فیڈریشن بلوچستان کے صدر شاہ علی بگٹی،پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا کے صدر علی باش خان، یونائیٹڈ ماربل ورکرز یونین چاغی کے صدر سعید احمد بلانوشی ،ایگری کلچر ایمپلائزیونین کے صدر عبدالغفار جمالی،پی ایم ڈی سی ایمپلائز یونین شاہرگ کے جوائنٹ سیکرٹری حاجی یونس، لیبر اینڈ ایمپلائز یونین ایس ایم لطیف مچھ کے صدر نصیر احمدسمالانی، لیبر اینڈ ایمپلائز یونین شیخ رمضان مچھ کے صدر محمد شاکر سمالانی، یو ایم سی ورکرز یونین کے صدر حاجی سیف اللہ یوسفزئی، پاکستان کول مائنز مزدور یونین کے جنرل سیکرٹری صالح محمد آزاد ،لیبر اینڈ ایمپلائزایس ایم لطیف کول کمپنی مچھ کے صدر نصیر احمد سمالانی سمیت ملک بھر سے مختلف یونینز کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ماسٹر ٹرینر عبدالحلیم خان نے ورکشاپ کے شرکاءکو جاب ٹریننگ ان سیف مائننگ پر تفصیل سے بریفنگ دی اور پی ایم ڈی سی ایمپلائز یونین شاہرگ کے جوائنٹ سیکرٹری حاجی یونس نے ورکشاپ کے شرکاءکومائن میں استعمال ہونے والے حفاظتی آلات کے استعمال ،حفاظتی تدابیر اور لیبر قوانین کے بارے میں آگاہی فراہم ۔
”جاب ٹریننگ ان سیف مائننگ ورکشاپ“ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلطان محمد خان نے بتایا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 60 سے زائد معدنیات نکالی جا رہی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روز گار وابستہ ہے۔ مائننگ بالخصوص کول مائننگ مشکل اور خطرناک ترین کام ہے جس میں صحت و سلامتی کے اصولوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔کوئلہ نکالنے کے ہنر سے نا آشنا کان کنوں کی وجہ سے بھی بعض حادثات ہوتے ہیں ،ناقص الیکڑک وائرنگ ،خراب ریلوے ٹریک،ٹرالی کی رسی ٹوٹنے،سیفٹی بیلٹ استعمال نہ کرنے اور سفیدے کی لکڑی ٹوٹنے کے سبب مائن کی چھت گرنے کے سبب حادثات رونما ہوتے ہیں۔رواں سال 80 کے قریب مائن ورکرز مختلف حادثات کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں۔مائنز میں ہونے والے حادثات کے نتیجے میں پاکستان میں ہر سال300 کے قریب کان کنوں کی اموات ہوتی ہے اور 3 ہزار سے زائد محنت کش زخمی ہوتے ہیں جن میں سے درجن سے زائد معذور ہو جاتے ہیں۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلطان محمد خان نے کہا کہ مائن ورکرز کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے کیلئے بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں کمیونیکیشن کا جدید انتظام نافذ کیا جائے،کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے جو اقدامات درکارہیں ان میں پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ کام کی مخصوص ضرورت کے مطابق جیسے مائننگ شوز، گمبوٹس، ہیلمٹ، سیفٹی بیلٹ، سیفٹی ہارنس، سیفٹی ہک، ہاتھوں کے دستانے، حفاظتی چشمے، ، خود ساختہ سانس لینے کا سامان،زیر زمین کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کیلئے کیپ لیمپ،ریسٹ شیلٹر، فرسٹ ایڈ سٹیشن اور فرسٹ ایڈ روم اور مائن اسٹیشن،کانوں میں استعمال ہونے والی ارگونومیکلی ڈیزائن کی گئی مشینیں،مائنزمیں کام کی کیلئے روشنی اور پانی کے چھڑکاو ¿ کا انتظام،مائن میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کیلئے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز، کارکنوں کی حفاظت کیلئے مناسب وینٹیلیشن کا انتظام کیا جائے تاکہ حادثات کی روک تھام ممکن بنائی جا سکے۔ ان کے علاوہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کیلئے کام کی جگہ کے قریب رہائش کی سہولیات، کینٹین، ریسٹ شیلٹرز ،پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی،کوئلہ کانوں کے مختلف حصوں میں ڈسپنسری کی سطح سے لے کربڑے ہسپتالوں تک مختلف طبی اداروں کے ذریعے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو مفت طبی سہولیات،کان کنوںکے بچوں کیلئے سکول،کارکنوں کی رہائشی کالونیوں کے قریب تفریحی اور کھیلوں کی سہولیات موجود ہیں تاکہ کارکنوں اور ان کے خاندانوں کی اچھی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس بلوچستان کی ممبرپرو فیسر فرخندہ اورنگ زیب نے اپنے خطاب میں کیا کہ پاکستان میں کول مائننگ کے حوالے سے ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہے ،کول مائننگ کے ہر علاقے کے مختلف مسائل ہیں ،دُکی ، چمالنگ اور اناڑی میں کان کنی کرنے والے محنت کش سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں ،ان علاقوں میں صحت وسلامتی کے اصولوں اور مائنز ایکٹ پر عمل نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں زیادہ حادثات بھی انہی علاقوں کی مائنز میں رونما ہوتے ہیں ۔کان کن مدھم روشنی کے ساتھ مائن میں اترتے ہیں،ہیلمٹ اورسیفٹی بیلٹ بھی استعمال نہیں کرتے ۔ٹرالی کھینچنے والی رسی بھی خراب ہوتی ہے ،اس صورتحال میں کان کن اپنی زندگیاں داﺅ پر لگا کر کام کرتے ہیں جو کسی بھی صورت سود مند نہیں بلکہ گھاٹے کا سودا ہے۔سیفٹی کے لحاظ سے پہلا قدم کان کنوں نے خود اُٹھانا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے مجبوریوں کے تحت کان کن اپنی زندگیوں کو داﺅ پر لگا کر کان میں اترتے ہیں۔حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ مائن ایکٹ 1923 پر سختی سے عمل کرائے ، لیبر انسپکٹر مائن مالک کا نمائندہ نہیں بلکہ مزدور کا نمائندہ ہوتا ہے ، مائن ورکر اور لیبر انسپکٹر میں فاصلہ نہیں ہونا چاہے ،ہر مزدور کو معلوم ہونا چایئے کہ جس مائن میں کام کر رہا ہے اس کا مالک کون شخص ہے۔ جب تک مائن ورکرز کی ایک مضبوط یونین نہیں ہوگی ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔مائن ورکرز کومائن مالکان سے اپنے حقوق لینے کیلئے خود کھڑا ہونا ہو گا۔مائن ورکرز کسی بھی کان میں کام کرنے سے پہلے مائن منیجر کے ساتھ کنٹریکٹ سائن کرتے ہوئے اس چیز کو یقینی بنائیں کی اس میں ای او بی آئی میں رجسٹریشن ، اقات کار ،مدت ملازمت کا تعین ،صحت و صلامتی کے اصولوں کے تحت کانکنی کیلئے مخصوص آلات کی فراہمی کو یقینی بنائیں،کان کن شارٹ ٹرم کا فائدہ نظر نداز کرکے لانگ ٹرم کی پالیسی اپنائیں۔تب جا کر مزدور کے حالات میں بہتری آئے گے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس بلوچستان کی ممبرپرو فیسر فرخندہ اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ مائننگ کا شعبہ تمام صنعتی تقاضے پورے کرتا ہے لہٰذا حکومت مائننگ کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے اور فوری طورپر نئی قانون سازی کی جائے جبکہ مائن ورکرز کی صحت وسلامتی کو یقینی بنایاجائے۔پاکستان سینٹرل ما ئنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین عبدالستار نے کہا کہ ہر صوبے میں مائنز ایکٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مائنز کی الاٹمنٹ کی جا رہی ہے ،مائن مالکان اور ٹھیکیدار کان کنوں کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن نہیں کراتے جو مزدوروں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔لہٰذا مائن الاٹمنٹ کے وقت یہ شر ائط ر کھی جائے کہ مائنزکمپنی اپنے ورکرز کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن یقینی بنائے گی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ میںدو فیصدٹیکس کی ادائیگی بھی کرے گی جو مائنزکمپنی ویلفیئر فنڈ اور ای او بی آئی میں کنٹربیوشن دو فیصد ٹیکس ادا نہیں کرتی ان کی الاٹمنٹ فوری طور پر منسوخ کی جائے۔لیبر اینڈ ایمپلائز یونین ایس ایم لطیف مچھ کے صدر نصیر احمدسمالانی کا کہنا تھا کہ ٹھیکیدار سسٹم کی وجہ سے مائن ورکرز کے حقوق سلب ہو رہے ہیں لہٰذا کول مائننگ کے شعبے سے ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔لیبر اینڈ ایمپلائز یونین شیخ رمضان مچھ کے صدر محمد شاکر سمالانی کا کہنا تھا کہ مائن ورکرز کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے کیلئے فوری طور پر عملی اقدامات کئے جائیں،حادثات کے نتیجے میں زخمی اور معذور ہونے والے کان کنوں کو علاج و معالجہ کی بہترین سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور محنت کشوں کی صحت و سلامتی کے اصولوں کو نظرانداز کرکے کی جانے والی مائنز الاٹمنٹ فوری طور پر منسوخ کی جائے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا کے صدر علی باش خان نے بتایا کہ کان کنی کے شعبے میںٹھیکیداری سسٹم اور صحت وسلامتی کے اصولوں کو نظر انداز کرنے کے سبب حادثات ہوتے ہیں ،شانگلہ کے ہر تیسرے گھر کا شخص کول مائننگ کے شعبے میں کام کے دوران ہونے والے حادثے میں شہید ہو ا ہے یا پھر زخمی ہو کر معذوری کی زندگی بسر کر رہا ہے۔پاکستان میں انگریز سرکار کا بنایا ہو مائن ایکٹ 1923 لاگو ہے لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا ۔ ایک صدی گزر جانے کے بعد اب حکومت کو مائن کے شعبے کیلئے نئی قانون سازی کرنی چاہیے اور ساتھ ہی حکومت مائننگ کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے ۔پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا کے صدر علی باش خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی کان میں کام کیلئے جانے سے قبل مائن مزدور کا مکمل میڈیکل چیک اپ کیا جائے،ان کی ویکسی نیشن کی جائے۔مائن ورکرز کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے۔واش روم، صحت مند کھانے کی فراہمی یقینی بنائے جائے۔آٹھ گھنٹے اقات کارپر سختی سے عمل کرایا جائے۔سولر سسٹم لگاکر دیئے جائیں۔علاوہ ازیں مائنز کا ٹھیکہ سیاسی بنیادوں کی بجائے اُوپن ٹینڈرز کی صورت میں دیا جائے ۔
ےونائےٹڈ ماربل ورکرز ےونےن چاغی کے صدر سعےد احمد بلا نوشی نے ورکشاپ میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میںمائننگ کے شعبے میں صحت وسلامتی کے اصولوں کو نہیں اپنایا جاتا،مائننگ کے حوالے سے انگریز سرکار کا بنایا ہوا مائننگ ایکٹ 1923 بھی موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس پربھی عملدرآمد نہیں ہو تا۔مائن ایکٹ کو بنے ایک صدی گزر چکی ہے لہٰذامائن ایکٹ 1923ءمیں ترامیم کی اشد ضرورت ہے۔ مائننگ کے شعبے سے مالکان اربوں روپے کماتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کان کنوں کی صحت وسلامتی اور ان کی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اقدامات نہیں کئے جاتے۔مائننگ کے شعبے میں نئی قانون سازی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اورحکومت مائننگ کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے ،جب مائننگ کا شعبہ صنعت کا درجہ اختیار کرجائے گا تو انقلاب آجائے گا۔ سعےد احمد بلا نوشی کا کہنا تھا کہ مائن ورکرز کو قوانین اور اپنے حقوق بارے معلومات نہیں ہیں لہٰذا سب سے پہلے مائن ورکرز کو صحت وسلامتی کے اصولوں ، لیبر قوانین اور حقوق بارے آگاہی دی جائے اس کے علاوہ مائن ورکرز کو کان میں کام کرنے کی بھی مناسب ٹریننگ دی جائے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی فنانس سیکرٹری عبدالستار جونیئرنے”جاب ٹریننگ ان سیف مائننگ ورکشاپ “ کے شرکاءکو بتایا کہ سورنج اور دُکی کے علاقے میں موجودکوئلے کی کانیں 4 ہزار سے6 ہزار تک گہری ہیں جس میں متھن گیس سمیت دیگر گیسوں کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں کان کن شہید ہو تے ہیں ۔کان کی گہرائی جتنی زیادہ ہو گی اس میںکان کنوں کی صحت و سلامتی کے حوالے سے حالات اتنے ہی زیادہ خراب ہوں گے۔زیادہ تر کانوں میں ڈبل شفٹ میں کام ہوتا ہے ایک شفٹ میں 11 مزدور کام کرتے ہیں بعض مائنز میں 8 اور بعض میں 18 مزدور کام کرتے ہیں،زیادہ گہرائی والی مائنز میں زیادہ مزدور کام کرتے ہیں،بہت کم مائنز میں 3 شفٹوں میں کام ہوتا ہے۔ کوئلے کی کانوں میں ہونے والے حادثات کی روک تھام کیلئے ڈائریکٹر جنرل مائن بلوچستان ، چیف مائن انسپکٹر سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کی وہ مائن ایکٹ 1923 پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنائیں۔حادثات کی روک تھام کیلئے سفیدے کی لکڑی کے بجائے کیکر کی لکڑی استعمال کی جائے ،الیکڑک وائر نگ کو محفوظ بنایا جائے ،کوئلے سے بھری ٹرالی کھینچنے کیلئے لاکل رسی کی بجائے امپورٹڈ رسی استعمال کی جائے ،سیفٹی بیلٹ کا استعمال یقینی بنایا جائے۔حادثات کی روک تھام کیلئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے ، کمیونکیشن کا نظام جدید بنیادوں پر استوار کیا جائے،گیسوں کی مقدار کو چیک کرنے کیلئے جدید تھرما میٹر استعما ل کیا جائے ۔کان کنوں کو مائن میں اتارنے سے قبل انہیں ہیلمٹ ، ڈانگری لباس ، لانگ شوز،دستانے اور سیفٹی بیلٹ سمیت دیگر ضروری آلات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔اور مائنز میں جا کر کس طرح کام کرنا ہے اس حوالے سے بھی کان کنوں کو ٹریننگ دی جائے ، کسی حادثے کی صورت میں خود کو بچاکر دیگر افراد کو ریسکیو کرنے کی بھی ٹریننگ دی جائے۔