اقتدار کے حصول میں مگن سیاست دانوں کی سیاسی چالوں کی جنگ میں وطن عزیز کے اصل مسائل نظر انداز ہوکر ملکی معیشت کیلئے زہر بنتے جا رہے ہیں، ظاہر ہے اِس زہر کا جب کوئی تریاق ہی تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں تو زہر ختم نہیں ہو سکتا۔ اسی رویے کی بنا پر ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور آج حالات اتنے پریشان کن ہو چکے ہیں کہ غریب افراد آٹے کے حصول کی خاطر زندگی کی بازی ہار رہے ہیں ۔ مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری 50 فی صد سے کم پیداواری صلاحیت پر چل رہی ہے، جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا ہے اور اس سے وابستہ 70 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔
کوئی بھی فلاحی ریاست عوام پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے گریز اور سہولتیں دینے کی کوشش کرتی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کم کرنے پر وسائل وقف نہ کرنے سے غربت اور بھوک و افلاس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف کے غلام حکمرانوں اور بے حس اشرافی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کاسونامی آچکا ہے۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح45فیصد سے بھی اُوپر پہنچ گئی۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی دکانداروں نے اپنی مرضی سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ڈالر کی اونچی اُڑان اور پاکستانی روپے کی روز بروز گرتی قدر نے مہنگائی کے طوفان کو سونامی میں بدل دیا ہے۔ اب روز بروز اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ پٹرول اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹر آئے روز کرائے بڑھا دیتے ہیں۔بجلی اور گیس کی صورتحال بھی پٹرول اور تیل سے مختلف نہیں ہے۔
اپوزیشن اسے حکومت کی نا اہلی قرار دے رہی ہے جبکہ بعض حکومتی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ معاشی بحران گزشتہ حکومت کی نا اہلی کے باعث آیا ہے۔ عوام کی بدقسمتی کا مزید اندازہ کیجیے کہ کسی بھی مقام پر ہمارے سیاست دان یہ نہیں سوچ رہے کہ بحران کیسے بھی آیا، اس کا ذمے دار چاہے کوئی بھی ہو مگر اس سب میں پس تو بیچارے غریب عوام رہے ہیں۔جس کا تعلق نہ تو کسی مل مافیا سے ہے اور نہ ہی اقتدار میں بیٹھے کسی شاہان ِوقت سے۔ انھیں تو بس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہے جو اسے میسر نہیں ، اگر یہی حالات رہے تو وہ وقت دور نہیں جب پورا مڈل کلاس طبقہ غریب طبقے کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں کہ چینی، آٹا، گھی، تعلیم اور ادویات سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔جب ماں باپ اپنے بچے کیلئے دودھ نہ خرید سکیں اور اولاد اپنے والدین کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھے تو سفید پوش اور غریب عوام کی تڑپ شاید ایوانوں کے بجائے سڑکوں پر دیکھی جائے گی۔
یہ طبقے آخر کب تک اپنی محدود آمدنی کے ساتھ زندگی کی لامحدود مشکلات کو پار کریں گے۔بڑھتی مہنگائی کے ساتھ ساتھ یہاں بے روزگاری نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے ہمارے ملک میں روزگار کا سلسلہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے وہ اپنی ماں اور بہنوں کے زیور بیچ کر ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں سے بہت سے تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دوسری جانب ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں میں اضافہ ہو نہیں رہا اور ہر ہفتے جب بازار خریداری کیلئے جاتے ہیں تو اشیائے خورونوش کا ایک نیا ریٹ ملتا ہے۔
مہنگائی اور جرائم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جتنی زیادہ مہنگائی ہوگی جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ مہنگائی جہاں ملکی معیشت کو تباہ کرتی ہے وہیں معاشرے میں جرائم کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح 45 فیصدسے زائدہے ، جو ایک الارمنگ صورتحال ہے۔ تقریباً ایک سال تک اس میں کمی آنے کی توقع نہیں ہے۔شرح سود بھی اوپر جائے گی، معیشت جو حد سے زیادہ پھیلی ہے وہ اب سکڑے گی، تو اب مہنگائی کی شرح 2023 جون کے بعد بھی نیچے آنے کی توقع نہیں ہے۔ شعبہ صحت کی بات کی جائے تو ہسپتال کے اخراجات اور ادویات کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے باعث ہم نے علاج سے کنارہ کشی کر لی ہے۔ سفید پوش طبقے کی تقریباً 80 فیصد آبادی کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہے۔ بجلی کے بل، گھی اور پٹرول کی قیمتیں اب اس طبقے کی دسترس سے باہر ہیں۔ سفید پوش اور غریب لوگوں کے ہاں مہمان داری تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ان کے بچوں کیلئے حصولِ تعلیم پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا۔ ہمارے تمام حکمران صحت و علاج، پانی، انصاف کی فراہمی، مہنگائی، ملازمت، قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں،ہمارے معاشرے میں آپسی تعلقات میں شدت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ میں، ہر شخص اپنے مفاد کی خاطر اپنی ضروریات کی تکمیل کے حصول کیلئے انسانی قدروں کو پامال کر رہا ہے۔