1973ء کے اولاً ربوہ کے ایک کالج کو قومیانے، ثانیا دستور میں اسلامی دفعات بالخصوص عقیدہ ختم نبوت کے شامل کرنے اور ثالثاً آزاد کشمیر میں، قادیانیوں کو اقلیت قرار دیئے جانے کی قرارداد کی منظوری پر قادیانی مشتعل ہوئے اور انہوں نے مواقع پر جارحانہ لب و لہجے میں بات کی اور ’’موت کو محبوب‘‘ بنانے کے اعلانات کئے۔
قادیانیوں نے فضائیہ میں موجودہ حکومت کے خلاف سازش رچائی۔ اس سازش کا انکشاف جن اشخاص نے کیا، فضایہ کے قادیانی سربراہ ظفر چوہدری نے انہیں ہدف بنایا اور صریح دھاندلی اور قانون شکنی کرتے ہوئے انہیں طرح طرح کے مظالم کے بعد ریٹائر کیا۔
نوبت یہاں تک آئی کہ وزیراعظم بھٹو نے کیس کا خود مطالعہ کیا، حقائق سامنے آئے تو انہوں نے ظفر چوہدری کو اس کلیدی عہدے سے ہٹا دیا۔
واضح رہے مرزا ناصر نے خلافت سنبھالنے کے معاً بعد 1965ء میں آئندہ بیس پچیس برس میں متعدد قادیانی حکومتوں کے قیام کی پیشگوئی کی تھی۔ اور اس پیشگوئی کو پاکستان میں عملاً پورا کرنے کیلئے انواع و اقسام کی فوجی اور غیر فوجی تیاریاں کیں۔ مثلاً:
(الف) دس ہزار، احمد گھوڑے (مرزا ناصر کے الفاظ یہی ہہیں) کی تیاری۔
(ب) ان گھڑ سواروں کی نیزہ بازی میں مہارت۔
(ج) ایک لاکھ سائیکل سواروں کی ٹیم کی تیاری، جو ایک سو میل تک روزانہ سفر کر سکیں اور بوقت ضرورت بوجھ لاد کر دوڑ سکیں۔
(د) چھوٹے بچوں کیلئے نشانہ بازی کی مشق کا اہتمام۔
(ہ) دس کروڑ روپے کا منصوبہ جس کے ذریعے دنیا کی ایک سو زبانوں میں قادیانی لٹریچر شائع کیا جائے۔
(و) مختلف ممالک میں تین بڑے پریس قائم کئے جائیں (ربوہ میں پریس لگ چکا)
(ز) ڈھائی کروڑ روپیہ سالانہ (جس میں کم از کم دس فیصدی اضافہ ہر سال ہو) کا بجٹ۔
آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کی امت اپنے مذموم عقائد کی برآوری کیلئے ملک کے کلیدی عہدوں کے طفیل اپنا ہی کھیل، کھیل رہی تھی۔ وہ وطن عزیز میں اپنا غلبہ چاہتے تھے۔ ان کی جرأتیں اور جسارتیں یہاں تک بڑھ گئی تھیں کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات میں علی الاعلان حصہ لیتے اور شکست کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے۔
نشتر میڈیکل کالج ملتان کی طلبہ یونین کے انتخابات میں ایک قادیانی طالب علم کے ہارنے کا انتقام انہوں نے اس انداز سے لیا کہ پوری امت ان کے خلاف شعلہ جوالہ بن گئیں۔
22 رمئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ کا ایک گروپ تفریح اور مطالعاتی دورے پر پشاور کیلئے چناب ایکسپریس سے روانہ ہوا۔ گاڑی جونہی ربوہ پیچی تو وہاں حسب معمول قادیانی لڑکوں اور طلبہ کی بوگی کیلئے خصوصاً لڑکیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا، جس پر مسلمان طلباء نے اظہار ناپسندیدگی کیا اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔
اس کے جواب میں قادیانی مشتعل ہو گئے اور احمدیت زنده باد اور مرزا غلام احمد کی جے جیسے کفریہ اور اشتعال انگیز نعرے لگائے اور طلبہ زدو کوب کیا۔
اسی اثناء میں گاڑی چل پڑی اور یوں ایک بڑا حادثہ ٹل گیا۔ لیکن جب طلبہ کی واپسی اسی ٹرین سے ہوئی اور گاڑی جیسے ہی 29 مئی 1974ء کو سرگودھا اسٹیشن پچھی تو قادیانی نوجوان ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مذکورہ بوگی میں بغیر کسی استحقاق کے سوار ہو گئے۔
جیسے ہی ربوہ اسٹیشن آیا، بوگی کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ طلبہ کو مار مار کر لہولہان کردیا۔ قادیانی اسٹیشن ماسٹر نے گاڑی کو نہ جانے دیا۔ جب یہ لٹا پٹا قافلہ فیصل آباد پہنچا تو ایک قیامت کا سماں تھا۔
ریلوے اسٹیشن پر مولانا تاج محمودؒ کی قیادت میں لوگ قادیانی دہشت گردی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ قادیانیت کے خلاف مسلمانوں کی نفرت اور غم و غصہ کی لہر پورے ملک میں پھیل گئی۔ پنجاب اسمبلی میں اس واقعہ کی صدائے بازگشت سنی گئی۔
قائد حزب اختلاف علامہ رحمت اللہ ارشد، حاجی سیف اللہ خان اور تابش الوری نے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اسی روز قوی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا مفتی محمودؒ نے سانحہ ربوہ پر آواز بلند کی۔ وزیرتعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ نے یہ استدلال پیش کیا کہ چونکہ امن و امان کا مسئلہ صوبائی نوعیت کا ہے اور یہ مسئلہ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے، اس لئے قومی اسمبلی میں اس کی ضرورت ہیں۔
بہرحال پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف احتجاری مظاہرے شروع ہو گئے۔ 31 مئی کو سانحہ ربوہ کی تحقیق کیلئے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے ایم صمدانی پر مشتمل یک رکنی ٹربینول کا اعلان کیا گیا۔
صوبہ سرحد کی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی، جبکہ صوبہ سندھ کی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس مسئلہ پر سمجھوتہ ہو گیا۔
28 جون 1974ء کو پنجاب اسمبلی کے ستر ارکان نے قرارداد پیش کی، جسے اسپیکر شیخ رشید احمد نے خلاف ضابط قرار دے دی۔ اسی روز مولانا مفتی محمود مجلس عمل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا تاکہ قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد پیش کی جائے۔
30 جون کو مولانا شاہ احمد نورانی نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک پیش کی۔ یکم جولائی کو وزیراعظم بھٹو نے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کرلیا۔ تحریک کا مورال ایسا تھا کہ قوم کا ہر فرد خود کو اس تحریک کا حصہ بنتا تھا، پوری قوم نے ملت واحدہ کا عملی نمونہ پیش کیا۔
ادھر قادیانیوں نے اپنی خاص حکمت عملی کے تحت اندرون ملک تمام قومی بینکوں سے اپنا سرمایہ نکلوا کر بیرون ملک منتقل کرنا شروع کردیا، تاکہ ملک میں معاشی ابتری پیدا ہو سکے۔
دوسری جانب لندن میں بیٹھے سابق وزیر خارجہ ظفر اللہ خان حکومت پاکستان کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو اس فرقے کے تمام لوگ بھر پور مزاحمت کریں گے اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں 13 روز تک قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد اور لاہوری جماعت کے سربراہ صدرالدین لاہوری پر خصوصی جرح ہوئی اور ان کا حلفی بیان قلمبند کیا گیا۔ اس سلسلہ میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے گئے۔
مرزا ناصر احمد نے قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کی طرف سے محضر نامہ پیش کیا۔ جس کا جواب مجلس عمل نے علماء کرام کے مشورہ سے دیا۔ جسے ’’ملت اسلامیہ کا موقف“ کے نام سے شائع کرانے کے بعد اراکین اسمبلی میں تقسیم کیا گیا۔
لاہوری گروپ کے محضر نامہ کا جواب مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے دیا۔ قادیانی و لا ہوری جماعت کے سربراہوں کے مفصل بیانات، ان پر علماء کی جرح اور اٹارنی جزل یحییٰ بختیار کے وضاحتی نوٹس کے دوران قادیانی مسئلہ کا ایک ایک گوشہ اراکین اسمبلی کے سامنے واضح ہوگیا، ورنہ اسمبلی کے اکثر اراکین اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ معاملہ سمجھتے تھے۔
یحیٰ بختیار کی طرف سے قادیانی جماعت کے سربراہوں پر کی گئی جرح اپنی مثال آپ تھی اور اس کے نتیجے میں ارکان پارلیمنٹ کو فیصلے تک پہنچنے کیلئے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
وزیراعظم بھٹو نے 7 ستمبر 1974ء فیصلے کی تاریخ مقرر کر دی۔ پوری قوم کی نگاہیں ایس یوم سعید پر مرکوز ہو کر رہ گئیں۔ 7 ستمبر 1974ء، /19 شعبان 1394ھ ملت اسلامیہ کی تاریخ کا وہ سنہری اور نا قابل فراموش دن ہے جب قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔