دین اسلام سمیت دیگر مذاہب کی بنیادی باتیں قدرے مشترک ہیں اور یکسانیت موجود ہے تاہم لوگوں کو ورغلانے اور بھٹکانے میں مذہبی ٹھیکیداروں کا عمل دخل لگا رہتا ہے۔ اللہ کی وحدانیت، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت، اچھی اور بری تقدیر، آخرت پر یقین، رسولوں اور آسمانی کتابوں پر ایمان، مرنے کے بعد کی زندگی، شراب کی ممانعت، ستر کا ڈھانپنا، خنزیر کے گوشت کی حرمت، چوری، جھوٹ سے اجتناب، والدین کی عزت و تکریم، بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود وغیرہ کا دنیا کے تمام مذاہب درس دیتے ہیں اور یوں سیکولرازم کی کھوکھلی اصطلاح خود بخود طشت از بام ہو کر رد ہو جاتی ہے۔سیکولرازم کی اصطلاح برطانوی لکھاری جارج جیکب نے صرف راہبوں اور چرچوں کے ریاست سے علیحدگی کے لئے استعمال کی تھی نیز جارج جیکب بائبل کا عالم نہیں تھا اور وہ بائبل کو اچھی طرح سمجھتا بھی نہ تھا اس لئے اس نے راہبوں اور چرچوں کے فرسودہ اصولوں کو مدنظر رکھ کر یہ اصطلاح استعمال کی تھی اور ہمارے معاشرے خصوصاً برصغیر کے نوجوانوں نے بھی بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کرنے کے اسی اصطلاح کا پرچار کرنا شروع کر دیا جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہمارے نوجوانوں میں اکثریت ملحدانہ و رندانه نظریات کی جانب راغب ہوئے۔
معاشرے میں سماجی و معاشرتی برائیوں کے مرتکب ہونے والے ان پڑھ نہیں بلکہ ان میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ رشوت، کرپشن، ظلم و ناانصافی، لوٹ کھسوٹ میں پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں اور ایسے لوگ کیوں نہ ایسے افعال سرانجام دیں گے چوں کہ علم سے دوری، طبقاتی اور ناقص تعلیم کا ثمر تو ملنا ہی ہے۔ سرکاری محکمہ جات میں افسران، معتمدان (سیکرٹریز وغیرہ) و دیگر اہلکار پڑھے لکھے ہیں جو غبن، بدعنوانی میں مصروف ہوتے ہیں یہاں تو کوئی ان پڑھ نہیں ہوتا، یوں ایک سماجی پہلو کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ موجودہ نظام تعلیم کا مقصد صرف نوکری کا حصول اور اپنے شکم کی بھوک مٹانا ہے جس سے انسان اپنے حقیقی مرتبہ اشرف المخلوقات تک پہنچنے کے بجائے خون خوار بھیڑیا بن رہا ہے۔ انصاف ملتا نہیں بکتا ہے۔ یہ سب پڑھے لکھے ماہر(M.Phil) اور علامہ (Ph.D) لوگ ہیں تو پھر کیونکر تمام سماجی و معاشی و دیگر برائیاں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔ اسی تلخ حقیقت پر راقم کی ایک تحریر پرجب ایکٹا کے سابق صدر نے تبصرہ کیا اور اس پر بحث و تمحیص بھی ہوئی اور پروفیسر موصوف نے دیگر پروفیسرز جن کا تعلق باغ، راولاکوٹ اور بھمبر سے تھا، کو بھی بحث میں شامل کر لیا۔ ان سب پروفیسرز صاحبان کا یہ مؤقف تھا کہ ہم جو کالجوں میں تعلیم دے رہے ہیں اسی تعلیم سے معاشرے کو بدلا جا سکتا ہے جس پر راقم نے جزوی اتفاق کرتے ہوئے کہا موجودہ طبقاتی نظام تعلیم سے معاشرے کو بدلا نہیں جا سکتا بلکہ پیٹ کا پجاری بنایا جا سکتا ہے۔
دنیا میں صرف دو ہی علوم (علم الابدان اور علم الادیان) ہیں باقی سب فنون لطیفہ ہیں۔ ہم اعلیٰ تعلیم کے ذریعے معاشرے کو تعلیم یافتہ بنا لیں تو بھی حقائق نگاری و الفت و محبت نہیں بلکہ نفرت و نخوت اور غرور کی کیفیت ہوتی ہے۔پروفیسر صاحبان اس جدید دور میں معلم جیسے مقدس پیشے کے ذریعے معاشرہ کو طبقات سے پاک اعلیٰ تعلیم یافتہ بناکر تقابل ادیان اور حقیقت و منطق پر عمل پیراء بنانے میں مثالی لائحہ عمل پیش کر سکتے ہیں اور اپنے وطن کی تاریخ و اسلاف کے کارنامہ ہائے جات کا قوم کے نونہالوں اور درس دینا عصری اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے۔فن لینڈ میں موجودہ حالات کے مطابق نصاب ترتیب دیا گیا ہے اور قوم کو بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم فساد کی بنیادی جڑ ہے۔ ایک ہی خطے میں آکسفورڈ، الباقیو، آفاق، گابا، عصریہ وغیرہ کا نصاب پڑھایا جاتا ہے جس کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ ایک ہی معاشرے کے لوگوں کی سوچیں مختلف اور متضاد ہوتی ہیں اس کے لئے اب دو ہی راستے باقی بچتے ہیں ہر شادی شدہ جوڑا اپنی اولادوں کی اعلیٰ تربیت کرے اور ایک نئی خود دار نسل جنم دے اور دوسرا راستہ باشعور لوگوں کی اعانت سے قانون قدرت کے عین مطابق انقلاب برپا کرنا ہے۔ چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ نے اپنی افیونی قوم کو ایک نقطہ پر اپنے ٹھوس فلسفہ کی بناء پر قائم کیا جو اُس وقت کے لئے ضروری تھا۔ اُس دوران چین کے امیر اور سرمایہ دار لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے امریکہ اور یورپ بھیجتے تھے لیکن اب ماؤزے کا وہ خواب عظیم ملک شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے۔
ترقی کے مصطفی کمال پاشا نے بذات خود اپنی قوم کو ایک عظیم قوم بنایا حتیٰ کہ ترکش زبان کا رسم الخط بھی لوگوں کو خود سکھایا جب کہ ہمارے ہاں حکمران اپنی رعایا سے بات کرنا درکنار ایک جونیئر کلرک سیدھی منہ سے بات کرنا گوارہ نہیں کرتا۔ سرکار اور حکومت عوام خود بناتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سرکاری ملازم گریڈ 1 سے گریڈ22 کا ہی کیوں نہ ہو وہ حکومت اور ریاست کا نوکر اور عوام کا خادم ہوتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی بلکہ اس کی سوچ پر ریاست کی سوچ غالب ہوتی ہے تو وہ عام لوگوں سے بات نہ کرے اور لوگوں کو دھتکارے کسی صورت ممکن ہی نہ ہے۔اس میں لوگوں کا اپنا قصور ہے اور لوگ برابر کے شریک و مجرم ہیں۔ ہمالیائی خطہ (ریاست جموں کشمیر و تبت ہا اور نیپال) میں جاہل اور نوسر باز لوگ گڈریا( حکمران ) بن کر بھیڑ بکریوں (عوام) میں بھیڑیئے کا روپ دھارتے ہیں جن کی مدح سرائی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کرتے اور اپنی جبین جھکانے میں فخر سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ فوٹو سیشن ایک ایسا سماجی وبائی مرض ہے کہ ہمارے نوجوان کسی ڈائریکٹر یا ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے دوران اپنی تصویر کھینچواتے ہیں۔ارے بھئی کیا ہو گیا ہے صدر اور وزیراعظم کے ساتھ تصویر بنا لی تو وہ الگ معاملہ ہے، وہ سربراہان مملکت ہوتے ہیں جب کہ بے وقوف اور سستی شہرت کے رسیا لوگ نوکروں کو ہیرو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں بے سروپا نظریات کی ترویج ہوتی ہے جس سے ایک ہی کلاس کے ہم مکتب ساتھی آپس میں مغائر سوچ کے حامل ہیں۔ ایک فلسفی کے مطابق سائنس کا کم علم انسان کو ملحد (دہریہ) بنا دیتا ہے اور سائنس کا وسیع علم انسان کو موحد( مومن ) بنا دیتا ہے اور یہ ہی حقیقت ہے کہ تعلیم انسان کو اشرف المخلوقات نہیں بنا سکتی جب تک علم حاصل نہ کیا جائے۔
(جاری ہے)