”چھپن چھپائی“ یا ”چور سپاہی“ کا کھیل بچپن میں تو سبھی نے کھیلا ہوگا۔ تاہم دور حاضر میں انٹرنیٹ کی سہولت اور ویڈیو گیمز میں بچوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث اس مقامی روایتی کھیل کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔
معاشرے میں لیپ ٹاپس، موبائل فونز اور ویڈیو گیمز کی بھرمار کی وجہ سے چھپن چھپائی آج کل کے بچوں میں زیادہ مقبول نہیں ہے۔ بلکہ ان دنوں اس مقامی کھیل کا نام سیاسی بیان بازی میں زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔
چھپن چھپائی کا یہ کھیل بچوں میں چور پولیس یا چور سپاہی کے نام سے بھی مقبول تھا۔ چھپن چھپائی یا چور سپاہی کا یہ کھیل 18ویں صدی سے دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں مختلف طریقوں سے کھیلا جاتا رہا ہے۔ گوکہ اب چھپن چھپائی کا رحجان پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہوگیا ہے لیکن غریب گھرانے کے بچے آج بھی گلی محلوں میں اس کھیل سے محظوظ ہوتے ہیں۔
اسی طرح چین میں بھی بچے چھپن چھپائی بڑے شوق سے کھیلتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مختلف زبانوں میں اس کھیل کے الگ الگ نام ہیں۔ بنگلہ دیش میں چھپن چھپائی کو ”کنامچی“ کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں کنامچی لڑکیوں میں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔
مقامی کھیل کی تاریخ کے مطابق چھپن چھپائی جرمنوں کی ایجاد ہے، کیونکہ جب چھپنے والوں میں سے کوئی پکڑا جاتا ہے تو چور ایک مشہور جرمن فقرہ ”اولے اولے اوگزن فری“ کہتا ہے، جس کے اردو معنی یہ ہیں کہ ”اب ہر کوئی آزاد ہے کیونکہ میں نے اس شخص کو پکڑلیا ہے“۔
رپورٹ کے مطابق 18ویں صدی میں جرمنوں نے اپنی زبان اور کلچر کے بل پر امریکیوں پر غلبہ پالیا تھا، اسی لئے امریکی ہر وہ جملے یا فقرے ادا کرتے تھے جو جرمن کہتے تھے۔ چھپن چھپائی کے کھیل میں استعمال ہونے والا یہ جرمن قفرہ بھی امریکیوں کے ذریعے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔
چھپن چھپائی کے کھیل میں ایک بچہ چور بنتا ہے، اس کی آنکھیں بند ہونے پر باقی سب بچے چھپ جاتے ہیں۔ لہذا چور بچے کے ذمہ انہیں ڈھونڈ نکالنا ہوتا ہے، جو بچہ سب سے پہلے پکڑا جاتا ہے اگلی مرتبہ اسے چور بنایا جاتا ہے۔ پہلی بار چور بننے کے لئے سب بچے تین، تین کے گروپ میں مل کر ”پگنے“ کا ایک کھیل کھیلتے ہیں۔ جس میں وہ ایک دوسرے کی ہتھیلیوں کو جوڑ کر اپنے ہاتھ سیدھے یا الٹے پلٹ لیتے ہیں، جن دو بچوں کے ہاتھ ایک انداز میں سیدھے یا الٹے پلٹتے ہیں، وہ پھر سے کسی تیسرے فرد کو شامل کر کے یہی عمل دہراتے ہیں۔
ہاتھ مختلف طریقے سے پلٹنے والا بچہ پگ کر کھیلنے والی ٹیم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس طرح آخر میں ایک بچہ ایسا رہ جاتا ہے جو پگنے سے رہ جاتا ہے، اسی کو چور بننا پڑتا ہے۔
اس کھیل میں اکثر بڑی دھاندلیاں یا ”بے ایمانیاں “ہوتی ہیں۔ اوّل تو چور بنانے کے لیے شروع ہی میں بڑی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ چالاک بچے آپس میں آنکھوں ہی آنکھوں میں گٹھ جوڑ کر کے ہاتھوں کو سیدھا اور الٹا رکھنے کا طے کر کے کسی ایک بچے کو چور بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
پھر کھیل کے دوران بھی جس کسی کو اگلا چور بنانے کا فیصلہ ہو جائے، اس کے پکڑے جانے تک باقی بچوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔