تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

ماضی کا حصہ بننے والی ’’چُھپن چُھپائی‘‘

maazi ka hissa banne wali chupan chupai
  • واضح رہے
  • جنوری 18, 2021
  • 1:04 شام

گلی محلے کے اس مشہور کھیل یا مشغلے کی ابتدا دراصل جرمنی سے ہوئی تھی، جو دنیا بھر کے بچوں میں مقبول ہوگیا

”چھپن چھپائی“ یا ”چور سپاہی“ کا کھیل بچپن میں تو سبھی نے کھیلا ہوگا۔ تاہم دور حاضر میں انٹرنیٹ کی سہولت اور ویڈیو گیمز میں بچوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث اس مقامی روایتی کھیل کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔

معاشرے میں لیپ ٹاپس، موبائل فونز اور ویڈیو گیمز کی بھرمار کی وجہ سے چھپن چھپائی آج کل کے بچوں میں زیادہ مقبول نہیں ہے۔ بلکہ ان دنوں اس مقامی کھیل کا نام سیاسی بیان بازی میں زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔

چھپن چھپائی کا یہ کھیل بچوں میں چور پولیس یا چور سپاہی کے نام سے بھی مقبول تھا۔ چھپن چھپائی یا چور سپاہی کا یہ کھیل 18ویں صدی سے دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں مختلف طریقوں سے کھیلا جاتا رہا ہے۔ گوکہ اب چھپن چھپائی کا رحجان پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہوگیا ہے لیکن غریب گھرانے کے بچے آج بھی گلی محلوں میں اس کھیل سے محظوظ ہوتے ہیں۔

اسی طرح چین میں بھی بچے چھپن چھپائی بڑے شوق سے کھیلتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مختلف زبانوں میں اس کھیل کے الگ الگ نام ہیں۔ بنگلہ دیش میں چھپن چھپائی کو ”کنامچی“ کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں کنامچی لڑکیوں میں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔

maazi ka hissa banne wali chupan chupai

مقامی کھیل کی تاریخ کے مطابق چھپن چھپائی جرمنوں کی ایجاد ہے، کیونکہ جب چھپنے والوں میں سے کوئی پکڑا جاتا ہے تو چور ایک مشہور جرمن فقرہ ”اولے اولے اوگزن فری“ کہتا ہے، جس کے اردو معنی یہ ہیں کہ ”اب ہر کوئی آزاد ہے کیونکہ میں نے اس شخص کو پکڑلیا ہے“۔

رپورٹ کے مطابق 18ویں صدی میں جرمنوں نے اپنی زبان اور کلچر کے بل پر امریکیوں پر غلبہ پالیا تھا، اسی لئے امریکی ہر وہ جملے یا فقرے ادا کرتے تھے جو جرمن کہتے تھے۔ چھپن چھپائی کے کھیل میں استعمال ہونے والا یہ جرمن قفرہ بھی امریکیوں کے ذریعے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔

چھپن چھپائی کے کھیل میں ایک بچہ چور بنتا ہے، اس کی آنکھیں بند ہونے پر باقی سب بچے چھپ جاتے ہیں۔ لہذا چور بچے کے ذمہ انہیں ڈھونڈ نکالنا ہوتا ہے، جو بچہ سب سے پہلے پکڑا جاتا ہے اگلی مرتبہ اسے چور بنایا جاتا ہے۔ پہلی بار چور بننے کے لئے سب بچے تین، تین کے گروپ میں مل کر ”پگنے“ کا ایک کھیل کھیلتے ہیں۔ جس میں وہ ایک دوسرے کی ہتھیلیوں کو جوڑ کر اپنے ہاتھ سیدھے یا الٹے پلٹ لیتے ہیں، جن دو بچوں کے ہاتھ ایک انداز میں سیدھے یا الٹے پلٹتے ہیں، وہ پھر سے کسی تیسرے فرد کو شامل کر کے یہی عمل دہراتے ہیں۔

ہاتھ مختلف طریقے سے پلٹنے والا بچہ پگ کر کھیلنے والی ٹیم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس طرح آخر میں ایک بچہ ایسا رہ جاتا ہے جو پگنے سے رہ جاتا ہے، اسی کو چور بننا پڑتا ہے۔

اس کھیل میں اکثر بڑی دھاندلیاں یا ”بے ایمانیاں “ہوتی ہیں۔ اوّل تو چور بنانے کے لیے شروع ہی میں بڑی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ چالاک بچے آپس میں آنکھوں ہی آنکھوں میں گٹھ جوڑ کر کے ہاتھوں کو سیدھا اور الٹا رکھنے کا طے کر کے کسی ایک بچے کو چور بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

پھر کھیل کے دوران بھی جس کسی کو اگلا چور بنانے کا فیصلہ ہو جائے، اس کے پکڑے جانے تک باقی بچوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے