وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہرنے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے اس کا پہلا مکمل بجٹ پیش کر دیا، جس میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ اشیائے خورو نوش سمیت سیمنٹ اور سی این جی مہنگی کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ چینی پر سیلز ٹیکس 8 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد اور خوردنی تیل پر بھی ٹیکس بڑھا کر 17 فیصد کر دیا گیا ہے۔ خشک دودھ اور پنیر کی درامد پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔ موبائل فون کی درآمد پر عائد تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کرنے کر دیا گیا ہے۔
حکومت نے تنخواہ دار طبقے کا بھی خون نچوڑنے کا ارادہ کرلیا ہے اور پچھلے بجٹ کے مقابلے میں ٹیکس وصولی کیلئے مقرر حد آدھی کردی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کیلئے قابل ٹیکس سالانہ آمدن چھ لاکھ روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ سالانہ 6 لاکھ سے کم آمدن والے ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گے۔ چھ لاکھ سے زائد سالانہ آمدن والے تنخواہ دار طبقے پر چھ سلیبز میں 5 فیصد سے 35 فیصد تک انکم ٹیکس عائد ہوگا۔ پہلے یہ ٹیکس 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن والے تنخواہ دار طبقے پر لاگو تھا۔
عام شہریوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی تجویز دینے والی حکومت نے نان فائلر پر عائد جائیداد کی خریداری کی پابندی ختم کردی ہے۔ ایک طرف حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافے کے راگ آلاپ رہی ہے تو دوسری جانب ٹیکس چوروں کو ریلیف دیا جا رہا ہے۔ جبکہ ملکی گروتھ کیلئے انتہائی اہم صنعتوں پر بھی ٹیکس اور ڈیوٹیز کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ادویات سازی میں استعمال ہونے والے 19 اقسام کے درآمدی خام مال کی ڈیوٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرکے گاڑیوں کی قیمت میں مزید اضافے کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ ایک ہزار سی سی تک انجن والی گاڑیوں پر 2.5 فیصد، ایک سے دو ہزار سی سی تک انجن والی گاڑیوں پر 5 فیصد، جبکہ دو ہزار سی سی سے زائد انجن والی گاڑیوں پر 7.5 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
ایل این جی کی امپورٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 17.18 روپے فی مکعب فٹ سے بڑھا کر مقامی گیس کے برابر 10 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز ہے۔
سیمنٹ کی فی بوری قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں سیمنٹ کی فی بوری پر 2 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جبکہ سگریٹس پر ایف ای ڈی ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔ بالائی سلیب میں 4500 روپے فی 1000 سٹکس سے بڑھا کر 5200 روپے فی 1000 سٹکس، زیریں دو سلیب پر 1650 روپے فی 1000 سٹکس کے لحاظ سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
بجٹ میں مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 17 ہزار 500 مقرر کرتے ہوئے گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا۔ وزیر مملکت حماد اظہر نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ملازمین اور پینشنرز کیلئے سول گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کیلئے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس، 17 سے 20 تک کی تنخواہوں میں 5 فیصد اور 21 اور 22 کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر یہ قربانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے مختص رقم ملک کے تمام ترقیاتی اور دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا اور یہ 1150 ارب روپے پر برقرار رہے گا۔ جبکہ ترقیاتی بجٹ 1800 روپے مقرر کیا گیا ہے۔ ادھر حماد اظہر کا دعویٰ ہے کہ بیرونی خسارے میں کمی کی جائے گی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر سے کم کر کے 6.5 ارب ڈالر تک لایا جائے گا۔
قومی ترقیاتی پروگرام کا کل حجم 18 سو ارب روپے ہو گا۔ اس میں سے 950 ارب روپے وفاق خرچ کرے گا۔ 70 ارب ڈیم کے منصوبوں پر صرف کئے جائیں گے۔ 15 ارب بھاشا ڈیم اور 20 ارب مہمند ڈیم کی زمین کے حصول کیلئے خرچ کئے جائیں گے۔ 55 ارب داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور 24 ارب روپے حویلیاں سے تھاکوٹ موٹروے پر خرچ کئے جائیں گے۔ سمبڑیال موٹروے بھی تعمیر کی جائے گی۔ انسانی ترقی کیلئے حکومت نے 60 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کیلئے 45 ارب روپے دئیے جائیں گے۔ زراعت کے شعبے کو وفاقی ترقیاتی بجٹ میں سے سوا کھرب روپے ملیں گے۔ ساڑھے 45 ارب روپے کراچی میں نو منصوبوں کیلئے رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان ترقیاتی پیکج کو 10 اعشاریہ 4 ارب روپے ملیں گے اور تیس ارب روپے پانی کے منصوبوں کو ملیں گے۔ خیبر پختون میں ضم ہونے والے قبائلی علاقہ جات کیلئے 152 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ حماد اظہر کے مطابق وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی جائے گی۔ حکومت کے اخراجات میں کمی کر کے اسے 460 ارب سے 437 ارب تک لایا جائے گا۔ یہ کمی 23 ارب روپے بنتی ہے۔
حکومت نے زرعی شعبے کیلئے 280 روپے کا پروگرام لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ بجلی اور گیس کیلئے 40 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔
بجٹ کا کُل تخمینہ 7022 ارب روپے ہے جو پچھلے برس سے 30 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات مجموعی طور پر 6 ہزار 717 ارب روپے ہوں گے، جو پچھلے برس کے مقابلے میں 19 فیصد زائد ہیں۔ ایف بی آر نے اس سال ٹیکس وصولی کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا ہے۔ بجٹ خسارہ 3560 بلین روپے، جبکہ مجموعی مالیاتی خسارہ تقریباً 3137 بلین روپے ہو گا۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں میں 3255 ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے، جو پچھلے برس کی نسبت 32 فیصد زیادہ ہیں۔ نیٹ وفاقی ذخائر 3462 ارب تک پہنچ جائیں گے، جو کہ پچھلے برس کی نسبت 13 فیصد زائد ہیں۔
حماد اظہر کے مطابق حکومت نے غربت کے خاتمے کیلئے نئی وزارت بنائی ہے۔ 10 لاکھ افراد کو خصوصی صحت کارڈ دیا جائے گا۔ عمر رسیدہ افراد کیلئے احساس گھر پروگرام شروع کیا گیا ہے، جبکہ معذور افراد کووہیل اور خصوصی آلات دئیے جائیں گے۔ ماہانہ 80 ہزار افراد کو بلاسود قرضہ دئیے جائیں گے۔