تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

مالی سال 20-2019ء میں زرعی شعبے کو 1215 ارب روپے کے قرضے دیئے گئے

  • واضح رہے
  • اگست 25, 2020
  • 12:34 صبح

یہ پشاور میں زرعی قرضہ مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی) کے مقرر کردہ زرعی قرضے کے ہدف سے 3.5 فیصد زیادہ ہے۔ اسٹیٹ بینک

کراچی: بینکوں نے مالی سال 2019-20ء کے دوران زرعی شعبے کو 1215 ارب روپے فراہم کیے۔ یہ نومبر 2019ء کے دوران پشاور میں زرعی قرضہ مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی) کے مقرر کردہ زرعی قرضے کے ہدف 1350 ارب روپے سے 3.5 فیصد زیادہ ہے۔بعض عوامل نے زرعی قرضے کی نمو کو محدود کیا ہے جن میں کورونا وائرس کا اثر، ٹڈی دَل حملے اور حقیقی شعبے کے جاری مسائل جیسے پانی کی قلت، کپاس اور گنے کی کی کم پیداوار، کھاد کے کم استعمال اور زرعی پیداوار کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ وغیرہ شامل ہیں۔ آخر جون 2020ء میں واجب الادا زرعی قرضے کا پورٹ فولیو بڑھ کر 581 ارب روپے ہوگیا جو گذشتہ سال کی 562 ارب روپے کی رقم کے مقابلے میں 3.3 فیصد کی نمو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم ملک میں کورونا وائرس کی بنا پر لاک ڈاؤن کی صورت حال کے باعث قرض لینے والوں کی تعداد میں کمی آئی اور وہ آخر جون 2019ء میں 4.01 ملین سے گھٹ کر آخر جون 2020ء میں 3.74 ملین ہوگئی۔

فراہمی کی سطح کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2019-20ء کے دوران پانچ بڑے کمرشل بینکوں نے مجموعی طور پر 708.3 ارب روپے کے زرعی قرضے تقسیم کیے جو ان کے 705 ارب روپے کے سالانہ ہدف کا 100.5 فیصد ہیں۔ خصوصی بینکوں نے 71.1 ارب روپے تقسیم کیے جو ان کے 113 ارب روپے کے سالانہ ہدف کا 62.9 فیصد ہیں اور چودہ ملکی نجی بینکوں نے بطور گروپ 225.0 ارب روپے تقسیم کرکے اپنے 253.6 ارب روپے کے ہدف کا 88.7 فیصد حاصل کیا۔ مزید یہ کہ پانچ اسلامی بینکوں نے بطور گروپ 42.1 ارب روپے تقسیم کرکے اپنے 55.0 ارب روپے کے سالانہ ہدف کا 76.6 فیصد حاصل کیا جو گذشتہ برس کی اسی مدت کی تقسیم سے 6.1 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح کمرشل بینکوں کی اسلامک ونڈوز نے مالی سال 2019-20ء میں 43.5 ارب روپے تقسیم کرکے اپنے 55.0 ارب روپے کے ہدف کا 79.2 فیصد حاصل کیا جو پچھلے سال میں فراہم کردہ 32.7 ارب روپے سے 33 فیصد زیادہ ہے۔

مالی سال 2019-20ء کی دوسری ششماہی میں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے باعث مائیکروفنانس شعبے کے زرعی قرضے قدرے سست رہے۔ بطور گروپ مائیکروفنانس بینکوں نے چھوٹے کاشتکاروں کو 139.3 ارب روپ کے زرعی قرضے دیے اور ہدف کا 75.7 فیصد حاصل کیا جو گذشتہ سال کی اسی مدت میں کی گئی 154 ارب روپے کی فراہمی سے 9.5 فیصد کم ہے۔ اسی طرح مائیکروفنانس اداروں؍ زرعی سپورٹ پروگراموں نے مجموعی طور پر 28.9 ارب روپے تقسیم کرکے اپنے ہدف کا 73.4 فیصد حاصل کیا جو پچھلے سال کے دوران چھوٹے اور محروم کاشتکاروں کو فراہم کردہ رقوم سے 15 فیصد کم ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسٹیٹ بینک نے کاشتکار طبقے اور ویلیو چین کے نچلے حصے میں زرعی کاروبار پر عالمی وبا کے منفی اثرات سے نمٹنے میں زرعی شعبے کو مدد دینے کے لیے متعلقہ فریقوں کی شراکت سے ایک جامع ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا۔یہ اقدامات ،جن میں زرعی قرضوں کی اصل رقم کے التوا اور ری اسٹرکچرنگ؍ری شیڈولنگ شامل تھی ،ابتدا میں 30 جون 2020ء تک کے لیے تھے جن میں اب توسیع کردی گئی ہے اور یہ 30 ستمبر 2020ء تک کے لیے مؤثر ہیں۔اسٹیٹ بینک صورت حال کا جائزہ لیتا رہے گا اور تعطل کے اس عارضی مرحلے میں مذکورہ شعبے کو اپنے مالی امور سنبھالنے میں مدد دینے کے لیے مزید اقدامات کرسکتا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے