کیلنڈر کی ابتداء
دنیا کی مختلف اقوام کے لوگ اپنے اپنے کیلنڈر کا آغاز اپنے کسی اہم اور مشہور واقعہ سے کرتے ہیں ہیں۔ کہیں بادشاہوں کی رقم تاج پوشی سے اور کہیں کسی بڑے حادثے سے، کبھی کسی کیلنڈر کی ابتداء ملکی فتوحات یا ارضی و سماوی سے بھی ہو جاتی تھی۔ مثلاً:
سب سے پہلے حضرت آدم علیہ اسلام کے نزول سے ابتداء ہوتی تھی۔ پھر لوگوں نے طوفان نوح کو اس کا معیار بنایا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کے واقعے سے۔ پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے بنی اسرائیل کو لے کر کامیابی سے نکلنے سے۔ پھر حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے زمانے سے۔
اسی طرح قومِ احمر نے واقعہ تبایعہ کو، قومِ غسان نے سدّ سکندری کو، اہل سنعاء شاہِ حبشہ کے یمن پر چڑھائی کو، ہندوستانیوں نے راجہ بکرماجیت کی تخت نشینی کو، دکن میں ایک راجہ کی فتوحات کو اور اٹلی میں آگ لگنے کے ایک واقعے کو اپنے اپنے کیلنڈروں کے لیے نقطہ آغاز قرار دیا گیا۔
اہل عرب نے اسی طریقے کی پیروی کی اور سب سے پہلے بنو بکر اور بنو ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سے 40 سال تک جاری رہنے والی "جنگ سبوس" کو، پھر دوسری مرتبہ بنو عبس اور بنو ذبیان ان کے درمیان گھڑ دور میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے کی وجہ سے پچاس برس تک انسانی زندگیاں نگلنے والی "جنگِ داحس" کو، پھر جنگِ نجراء کو، پھر جنگِ وقار کو، پھر جنگِ فجار کو اپنے ماہ و سال کے حساب کے لیے منتخب کیا۔
آخر کار ابراھہ نے مکہ مکرمہ پر جس سال حملہ کیا تھا اُس سے کیلنڈر کی ابتداء کی گئی اور وہ ’’عام الفیل‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
مسلمانوں نے اپنے کیلنڈر کی ابتداء سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعۂ ہجرت سے کی۔ کتابِ الہٰی نے کئی مواقع پر ماہ و سال کے متعلق اپنے خصوصی اسلوب میں اشارات پیش کئے ہیں، جن میں سے ایک آیت پیش خدمت ہے:
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: آپ سے وہ لوگ چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیں کہ یہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے وقت کے اندازے ہیں۔ (البقرة: 189)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالی نے چاندوں کو لوگوں کے لیے وقت معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا ہے، لہٰذا جب تم (رمضان المبارک کا) چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر عید الفطر مناؤ۔ پس اگر تم پر بادل چھا جائیں (اور مطلع اتنا غبار آلود ہو کہ چاند نظر آنا مشکل ہو) تو 30 دن کی گنتی پوری کرو۔‘‘
(تفسیر ابن کثیرا/ 225)
سنہ ہجری کا آغاز
مسلمان اپنے کیلنڈر کا آغاز رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس یادگار سفر سے کرتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق، دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنے آبائی علاقے اور بیت اللہ کے پڑوس کو چھوڑ کر کھجوروں والی سرزمین یعنی ’’مدینہ النبویۃ المنوّرہ‘‘ کی طرف فرمایا۔
چند ضعیف روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ ہجری کا آغاز خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا اور زمانۂ رسالت میں ہی اس کی ابتداء ہو چکی تھی، لیکن مشہور روایات یہی بتاتی ہیں کہ سنہ ہجری کا باقاعدہ آغاز امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ حکومت سے ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے 17ھ میں حضرات صحابہؓ کو تاریخ متعین کرنے کے بارے میں مشورہ کے لیے مدعو کیا۔ اس مجلس مشاورت میں اکابر صحابہؓ شریک تھے۔ جب مشورہ شروع ہوا تو چند لوگوں نے یہ رائے دی کے مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے ہونی چاہئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بات کو ناپسند فرمایا اس لئے کہ اس میں عیسائیوں کے ساتھ مشابہت تھی کہ وہ اپنی تاریخ کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت طیبہ سے کرتے تھے۔ مجلس میں ایک یہ رائے بھی سامنے آئی کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے سنہ وار تاریخ شروع کی جائے۔
اس بات کو بھی حضرت عمرؓ نے پسند نہیں فرمایا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ساری دنیا کے لیے بالعموم لیکن خاص طور پر جانثار صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے بہت بڑا حادثہ اور عظیم مصیبت تھی اور اس طرح اس جان فگار حادثے کیی بار بار یاد دہانی ہو گی، اس لیے یہ رائے بھی قبول نہیں ہوئی۔ بحث و مباحثہ کے بعد اس پر سب کا اتفاق ہو گیا کہ ’’ہجرت‘‘ سے تاریخ مقرر ہونی چاہیئے۔
(جاری ہے)