”ماں“ ایسا لفظ ہے جو دونوں ہونٹوں کے ملائے بغیر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ لفظ ماں سنتے ہی دل و دماغ ایسے تر و تازہ ہو جاتے ہیں جیسے بارش بنجر زمین کو تر و تازہ کر دیتی ہے۔ ماں کے بغیر گھر ہمیشہ ویران نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو یہ درجہ عطا کیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ ماں کی محبت وہ گہرا سمندر ہے، جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکا اور نہ ہی ناپ سکے گا۔ ماں کی محبت ہمالیہ کا وہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلندیوں کو آج تک کوئی چھو سکا سور نہ چھو سکے گا، ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی، ماں تو اولاد پر قربان ہوجایا کرتی ہے۔ ماں کے بارے میں لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔ ہر رشتے کی محبت کو الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے مگر ماں کی محبت ناقابلِ بیاں ہے۔ ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر کُل کائنات سموئے ہوئے ہے۔ ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ رب کریم جب انسان سے اپنی محبت کا دعوی کرتا ہے تو اس کیلئے ماں کو مثال بناتا ہے۔ ماں وہ ہے جس کو اک نظر پیار سے دیکھ لینے سے ہی حج کا سا ثواب ہے۔
ایک شخص نے اپنی ماں کو کندھوں پر اُٹھا کر سات حج کرائے اور بولا آج میں نے اپنا حق ادا کر دیا تو غیب سے آواز آئی کہ ابھی تو تو نے اس ایک رات کا حق بھی ادا نہیں کیا جب تو نے سوتے میں بستر گیلا کر دیا تھا تو تیری ماں ہی تھی جس نے تجھے تو خشک جگہ پر لیٹا دیا اور خود گیلی جگہ پر لیٹ گئی۔
کہتے ہیں کہ محبت کی ابتداءا ور انتہاء کو دنیا میں ناپنے کا اگر کوئی پیمانہ ہو تو وہ صرف اور صرف ایک لفظ میں مل سکتا ہے اور وہ لفظ ہے "ماں"۔ دنیا کے سارے رشتے ناطے ایک طرف اور ماں جیسا لازوال رشتہ ایک طرف۔ "ماں" محبت کی وہ ابتداء ہے جو اپنی اولاد کو نو مہینے اپنے پیٹ میں پالتی ہے۔ ان نو مہینوں میں وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دنیا میں آنے والے اس بچے کیلئے خود سراپا دعا بن جاتی ہے۔ وہ بچہ جو ابھی دنیا میں آیا بھی نہیں ہوتا اس کی خاطر وہ کس کس تکلیف سے نہیں گزرتی لیکن مجال ہے کہ اس اولاد کیلئے ایک زرا سی شکن بھی اس کے ماتھے پر آتی ہو جو آنے سے پہلے ہی اسے تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے جا رہے تھے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے گرنے ہی لگے تھے کہ غیب سے آواز آئی ”اے موسیٰ! سنبھل کر چل اب تیرے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی سے پوچھا کہ جنت میں میرے ساتھ کون ہوگا؟ ارشاد ہوا فلاں قصاب ہوگا۔ آپ کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے۔ وہاں دیکھا توایک قصاب اپنی دکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا۔ اپنا کاروبار ختم کرکے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصائی کے گھر کے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔ گھر پہنچ کر قصائی نے گوشت کو پکایا پھر روٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کئے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔
قصاب نے بمشکل اسے سہارا دے کر اٹھایا اور ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رہا۔ جب اس نے کھانا تمام کیا تو بڑھیا کا منہ صاف کیا۔ بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر قصاب مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آگیا۔ حضرت موسی علیہ السلام جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرادیا؟ قصاب بولا ارے اجنبی! یہ عورت میری ماں ہے۔ گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں، یہ روز خوش ہوکر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ رکھے گا جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ بھلا میں کہاں اور موسی کلیم اللہ کہاں۔
دنیا میں ماں کے سوا کوئی سچا اور مخلص رشتہ نہیں ہے۔ ماں ایک معتبر، شفیق اور بے لوث محبت کرنے والی عظیم ترین ہستی ہے، جس کی شفقت اور محبت کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر ہم تمام دنیا کے دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ ماں اپنی اولاد کو کبھی بھی دکھ نہیں پہنچنے دیتی، ماں کے شفیق ہاتھ اپنے بچوں کیلئے ہمیشہ خدا کے حضور ہی اٹھے رہتے ہیں۔
ماں وہ ہستی ہے جس کا نعم البدل نہیں، ماں ایک گھنے درخت کی مانند ہے جو مصائب کی تپتی تیز دھوپ میں اپنے تمام بچوں کو اپنی مامتا کے ٹھنڈے سائے تلے چھپا کے رکھتی ہے۔ ایسی محبت صرف ایک ماں ہی دے سکتی ہے۔ ساری عمر بھی اس کے نام کی جائے تو بھی حق ادا نہ ہو، اس کی ایک رات کا بدلہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں ماں کا ذکر آگیا سمجھ لینا چاہئے کہ ادب کا مقام آگیا۔ اللہ نے ماں کی ہستی کو یہ جان کر بنایا ہوگا کہ جب ایک ہارا ہوا انسان ناکامیوں سے تھک جائے تو ماں کی آغوش میں پناہ لے اور اپنے سارے رنج و الم، دکھ اور غم ماں کو کہہ سنائے اور جب ماں پیار سے اس کی پیشانی چومے تو اس کی تمام پریشانیاں اور اندیشے ختم ہوجائیں۔
ماں اپنے اندر شفقت و رحمت کا ایک سمندر لئے ہوئے ہے جیسے ہی اپنی اولاد کو پریشانی میں مبتلا دیکھتی ہے ماں کا دل تڑپ اٹھتا ہے۔ اس کے اندر موجود محبت کے سمندر کی لہریں ٹھاٹھیں مارنے لگتی ہیں اور تمام دکھ بہا کر دور بہت دور لے جاتی ہیں۔ ماں ایک مہتاب کی مانند ہے۔ زمین پر خدا کی محبت کا چلتا پھرتا روپ ہے۔ ماں کی ڈانٹ میں بھی پیار اور بھلائی چھپی ہوتی ہے وہ کبھی دل سے نہیں ڈانٹتی۔ ماں کبھی کسی کو دل سے بددعا نہیں دیتی جس نے ماں کا دل دکھایا گویا وہ دنیا میں نامراد آیا اور نامرادہی آخرت کو لوٹا۔ اس ہستی کا مقام کُل کائنات سے بھی بڑا ہے۔ دنیا جہان کی وسعتیں اس ہستی میں پوشیدہ ہیں۔
قرآن میں اللہ رب العالمین نے بھی اپنی بندگی کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم قرار فرمایا اور اس اطاعت کی حدیث کی روشنی میں ماں کی فرمانبرداری کے عوض جنت کی لازوال نعمتوں کا وعدہ فرمایا گیا ہے، کیونکہ ماں کی ممتا اور محبت میں کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہوتی، ماں اپنی وفاؤں کا بدلہ نہیں چاہتی اور یہی وجہ ہے کہ ممتا جیسی نعمت کی مثال ہے اور نہ ہی کوئی نظیر ہے۔ ماں کی محبت کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے، ماں کی ممتا مرکز تجلیات اور سر چشمہ حیات ہے، ماں صداقت کا پیکرہے جس میں کوئی بناوٹ نہیں۔
اے ماں تیرا پیار چاند کی طرح شفاف ہے۔ اے ماں تیری دعائیں ہمارے لئے زندگی کا کُل سرمایہ ہیں، اے ماں تو گھر کی روشنی ہے اور ہمارے لئے جنت کا راستہ ہے۔
ایسے بھی واقعات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں بیٹے ماں کو جائیداد کیلئے قتل کر دیتے ہیں۔ بد نصیب اولاد ماں کو معاشی بوجھ سمجھ کر سڑک کناروں یا پھر اولڈ ہومز میں چھوڑ جاتے ہیں۔ موجودہ دور نفسا نفسی کا ہے، اس میں اب ہم سب اپنی روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے ہم دین اسلام کے فرائض سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں سے ایک والدین سے حسن سلوک بھی ہے کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاوس بن رہے ہیں۔ والدین کو اولاد ان کے گھر سے ہی نکال رہی ہے یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے۔ اور اس بے حسی، ظلم پر ذرا بھی شرمسار نہیں ہے۔ موجودہ عہد میں والدین سے بد سلوکی، بد زبانی، طعنے و دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔ اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے، باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔
مغرب میں بچے بڑے ہوکر اپنے ماں باپ کو اولڈ ہومز میں داخل کروا دیتے ہیں۔ مغرب کی پیروی میں ایسا اب پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے ،پاکستان جو کہ ایک اسلامی ملک ہے اس میں بھی اولڈ ہوم بن چکے ہیں۔ آج کے مادیت زدہ معاشرے نے خاندانی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ والدین کی عزت رسم تک محدود ہوتی جا رہی ہے، اولاد دنیا کمانے میں مست ہے۔ ماں بہت مجبور ہو تو بس رو دیتی ہے۔
ہماری نئی نسل میں والدین کیلئے عزت و احترام کا رجحان کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اکثر لوگ ماں باپ کے احسان کو بھول کر ان کی محنت اور محبت کو فراموش کردیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے والدین کے اخراجات خوشی سے اُٹھاتے ہیں لیکن ان کیلئے وقت نہیں نکال پاتے۔ ایسے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ماں باپ کو پیسوں یا دوسری چیزوں سے زیادہ اُولاد کے وقت، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر خوش رہ سکتے ہیں اگر ان کو عزت دی جائے، ان سے محبت کی جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علمائے کرام، اساتذہ اور پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا وغیرہ پر حقوق العباد پر زیادہ سے زیادہ کام کیا جائے تاکہ نئی نسل اپنے اسلامی فرائض کو جان سکے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ آخرت کے حساب کتاب کا احساس دلایا جائے یہ ہی دانائی ہے کہ آخرت کا خوف ہو۔ والدین سے بد سلوکی گناہ کبیرہ ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں خدا کی محبت کا دوسرا روپ ماں ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو ایک ماں ہی ہوتی ہے جو اسے سب سے زیادہ اپنائیت دیتی ہے۔ ماں کی محبت وہ واحد اور سچی محبت ہے جس میں کوئی ریاکاری، دکھاوا، بناوٹ نہیں ہوتی۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کیلئے قرآن حکیم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں واضح احکامات ہیں۔ ماں کے حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے خصوصی اہمیت دی ہے۔ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے کا مطلب ہے کہ ساری عبادتیں مل کر بھی ماں کی خدمت کے برابر نہیں ہو سکتیں، اس لئے مرتے دم تک اس حق کی ادائیگی میں ہمہ وقت مستعد رہنا چاہئے اس سے ہماری زندگیوں میں پایا جانے والا بگاڑ اور بے سکونی کا خاتمہ ہوگا۔