وہ ہیں وہ لوگ جو مختلف گارمنٹس،شوز،منیاری کی دکانوں پر کام کرتے ہیں اور انکی ماہانہ تنخواہ دس سے بیس ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں ہے اگر اس طبقہ میں ایک اور طبقے کا اضافہ کیا جائے تو وہ چھوٹے پرائیویٹ سکولز کے ملازمین اور ٹیچرز ہیں جنکی ماہانہ تنخواہیں پانچ ہزار سے اٹھارہ بیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتیں اور اس دفعہ سکول مالکان بھی اپنے ایڈمیشن کے سیزن سے کچھ حاصل نہیں سکے ہیں ان طبقات کے گھروں میں شدید معاشی مشکلات آن پڑی ہیں لیکن ہم مسلمانوں میں شکر الحمداللہ احساس کا مادہ موجود ہے ایک طرف حکومت کی جانب سے احساس کفالت پروگرام شروع ہے
جبکہ دوسری جانب امداد کے نام پر کچھ این جی اوز اور نام نہاد مخیر حضرات امداد کے نام پر عوام کے ہجوم اکٹھے کرکے انکی صحت سے کھلواڑ کررہے ہیں اسکے ساتھ چند روپوں کی امداد کے ساتھ انکے ساتھ فوٹو سیشن کرکے سوشل میڈیا پر انکی جگ ہنسائی کروا رہے ہیں لیکن جس طرح انسانی انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی اسی طرح لوگوں اور ان تنظیموں میں بھی فرق ہے الخدمت فاونڈیشن نے بھی ان سفید پوش لوگوں کو ٹچ کرنے کا پلان بنایا اور سینکڑوں لوگوں کو گھر کے لئے راشن پہنچایا اور ان سفید پوش طبقہ کی عزت نفس کا بھی
مکمل خیال رکھا گیا اور اگر تصاویر بنائی گئیں تو اسطرح سے جس سے راشن دینے اور لینے والے کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اب ہمارے علاقہ میں تحریک انصاف کے ضلعی صدر انصر اقبال ہرل اور سٹی اور تحصیل کی تنظیم نے لاکھوں روپے اکٹھے کرکے ان دیہاڑی دار اور سفید پوش طبقہ کو انکے گھروں میں راشن پہنچانے کا ازم کیا ہے اب حکومت پنجاب نے بھی غریب،مسکین اور سفید پوش طبقہ کی مدد کے لئے انکا ڈیٹا موبائل ایپلیکیشن اور میسج کے ذریعے اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ بہت اچھا قدم ہے اور انتہائی آسان فہم ہے