اسلام آباد: پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی آرڈیننس کی توسیع کی میعاد ختم ہونے کے کئی ماہ بعد سینیٹ میں سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے گئے۔ ایک انگریزی اخبار کے مطابق سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے پوچھا کہ سی پیک اتھارٹی کس قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ گزشتہ سال جاری کردہ اس آرڈیننس کو قومی اسمبلی نے جنوری میں ایک قرار داد کے ذریعے 120 دن کی توسیع دی تھی لہٰذا جون میں آرڈیننس کی توسیع شدہ مدت اختتام کو پہنچی۔ صدر نے 8 اکتوبر 2019 کو جاری کردہ آرڈیننس کے ذریعے 10 رکنی سی پیک اتھارٹی قائم کی تھی جس کے تحت اربوں ڈالر کے روڈ اور ریل نیٹ ورک سے متعلق منصوبوں میں تیزی لائی جانی تھی جو چینی علاقوں کو بحیرہ عرب سے پاکستان کے راستے جوڑتے ہیں۔
اتھارٹی کو یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ وہ معاشی نمو کے نئے محرکات کو تلاش کرے اور علاقائی اور عالمی رابطے کے ذریعے باہمی طور پر منسلک پیداواری نیٹ ورک کی اور عالمی ویلیو چینز کی صلاحیت کو پرکھے۔ سینیٹر ربانی نے کہا کہ سی پیک اتھارٹی کے اپنے فنڈز اور بینک اکاؤنٹ ہیں اور وہ حیرت زدہ ہیں کہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر ادائیگیوں کے لیے یہ کس طرح چلایا جارہا ہے۔ انہوں نے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پیڈا) آرڈیننس کے اجرا پر بھی تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت نے سندھ اور بلوچستان سے متعلق امور پر بحث کیے بغیر ہی آرڈیننس کو خود ہی حتمی شکل دے دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ متنازع پیڈا آرڈیننس کو "جائیدادوں اور اثاثوں کی ملکیت لینے کے لیے" کئی دن تک چھپا کر رکھا گیا تھا جہاں یہ جائیدادیں اور اثاثے ان دونوں صوبوں کے ہیں۔ سینیٹر ربانی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈیننس لاگو ہونے کے بعد اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے پہلے اجلاسوں کے دوران پیش کیا جانا چاہیے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر دونوں کے فیصلے موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک کہ کوئی قرار داد کے ذریعے ایوان اسے مسترد نہ کردے اس وقت تک آرڈیننس 120 دن تک نافذ العمل رہتا ہے، انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے کہا کہ وہ یا تو وزارت سمندری امور کو ایوان میں آرڈیننس لانے کا حکم دیں یا استحقاق کی خلاف ورزی سے متعلق اپنی تحریک متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ کو وہ کرنے کی اجازت نہیں جو اسے خود سے کرنا چاہیے، اس کے بعد آرڈیننس پیش کرنے میں تاخیر پر حزب اختلاف کے اراکین احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ ہوگئے۔