کراچی: عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا کہ ملک میں زراعت اور صنعت مربوط پالیسی سمیت اسمگلنگ سے پاک نظام ناگزیر ہوگیا ہے۔ خدشہ ہے کہ عوام کے استحصال اور بد اعتمادی کے سبب راوی منصوبہ لٹک جائے گا۔
جسٹس وجیہ نے بتایا کہ جس زمانے میں جنگ عظیم دوئم اپنے عروج پر تھی، جرمن لندن پر بمباری کر رہے تھے اُس پُرخطر دور میں جب برطانوی قوم پریشان حالی کا شکار تھی۔ چرچل نے سوال کیا کہ کیا ہماری عدالتیں فعال ہیں اور کام کر رہی ہیں۔ جواب ملا کہ عدالتیں مصروفِ کار ہیں۔ تو چرچل نے کہا کہ پھر ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اور ہوا بھی ایسا ہی کہ قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی موجودگی میں اتحادی قوتوں نے جرمنی کو شکست دی۔ اور جنگ عظیم دوئم کا اختتام ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں مسائل دیگر قسم کے ہیں۔ یہاں پر لوگوں کا اعتماد عدالتوں خصوصاً نچلے درجے کی عدالتوں سے اٹھتا چلا جارہا ہے۔ مسائل کو عدالتوں میں لے جانے اور وہاں سے جلدی فیصلے حاصل کرنے کے بجائے ذرا ذرا سے مسئلوں پر شورش انگیز سیاست متحرک ہو جاتی ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ دھرنے دیئے جاتے ہیں۔
اس وقت کی صورتحال یہ ہے کہ راوی واٹر فرنٹ پروجیکٹ جس کی داغ بیل ن لیگ نے ڈالی تھی اور 3-14201ء میں اس کی فزیبلٹی بناتے ہوئے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے تقریباً 5 کھرب روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔ بعد میں ن لیگ نے اس پروجیکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔ عمران خان نے آتے ہی پروجیکٹ کو دوبارہ اٹھایا۔
انہوں نے بتایا کہ راوی واٹر فرنٹ پروجیکٹ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دراصل جو پانی لاہور شہر میں استعمال ہوتا ہے اور لاکھوں گیلن untreated پانی جو راوی میں ڈالا جاتا ہے، اس کو ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارنے کے بعد دریائے راوی (جو ہم نے بھارت کے ہاتھ بہچ رکھا ہے) کو دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے خصوصاً اگر سیلاب یا بارشوں کے پانی کو بھی ساتھ ملا لیا جائے۔ تاہم اب لوگوں سے لاکھوں ایکڑ زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انگریز کے قانون کے تحت اگر آپ سرکاری مقصد کیلئے کوئی زمین لیں گے تو مالک کو مارکیٹ پرائس ادا کی جائے گی۔
اب مارکیٹ قیمت تو یہ ادا کرتے ہی نہیں ہیں اور نہ کرسکتے ہیں، کیونکہ قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ تو فرضی قیمتیں جن کی بنیاد پر زمینیں بظاہر بیچی اور خریدی جاتی ہیں وہ ادا کی جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں وہاں کے لوگ کھڑے ہوگئے ہیں اور جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی تیاری ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ راوی واٹر فرنٹ پروجیکٹ یقیناً ایک اچھا پروجیکٹ ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ عوام اور علاقے کی بہبود کیلئے ہو۔ اور بلڈر مافیا کا پیٹ بھرنے کا سلسلہ ان سے منسلک نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو دھرنے ہوں گے نہ جلسے جلوس ہوں گے۔ اور یہ پروجیکٹ ایک کامیاب پروجیکٹ ہوگا۔ اور یہ موجودہ حکومت کے کارناموں میں ایک انمول کارنامہ ہوگا۔ لیکن ایسا ہونا نہیں ہے۔ وہی جھگڑے فساد ہوں گے اور کبھی نہ کبھی کوئی سمجھوتا ہوگا اور عدالتوں سے باہر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پوری کوششیں پیداوار بڑھانے کیلئے ہونی چاہئیں۔ انڈسٹریل پروڈکشن یقیناً ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ لیکن جب تک زراعت کے شعبہ میں مثبت کام نہ ہو انڈسٹری کے پہیے بھی جام ہوجاتے ہیں۔ افسوس یہ کہ گندم کی فصل تقریباً فیل ہوگئی۔ کپاس مارکیٹ میں نہیں ہے تو ٹیکسٹائل ملز کیسے چلیں گی۔ چینی کا بحران کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ خود کا پیدا کردہ تھا۔
بڑی بات یہ ہے کہ جو درآمد شدہ چینی تھی وہ اتنی تھرڈ کلاس کوالٹی کی تھی کہ حکومت کاروباری لوگوں سے درآمدی چینی پہلے فروخت کرنے کیلئے کہنے پر مجبور ہوئی۔ اور کہا کہ ملکی چینی اندر رکھ دیں کہ جب درآمدی چینی ختم ہو جائے تو اپنی چینی نکالیں۔ جہاں تک گندم کا تعلق ہے ہم نے روس سے ڈھائی ہزار روپے من کے حساب سے گندم درآمد کی۔ جبکہ اپنے کسان کو ہم گندم کی امدادی قیمت 2 ہزار روپے دینے کو بھی تیار نہیں۔
اسی طرح کپاس بونے والے ایریاز ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ وہاں گنے کی کاشت کی جا رہی ہے، جو پانی بھی زیادہ کھاتا ہے۔ لہٰذا جب تک ایک مربوط زرعی پالیسی نہ ہو اور معاملات کو نظریے کی بنیادوں پر دیکھا نہ جائے تو ہم زراعت میں کامیاب ہوں گے اور نہ صنعت کے معاملات بہتر ہوں گے۔ ان تمام چیزوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اور اس کے ساتھ جب تک ہمارے بارڈر محفوظ نہ ہونگے اور جب تک اسمگلنگ پر قابو نہیں پائیں گے اس وقت تک ہماری اپنی معیشت دوسروں کی محتاج ہوگی اور ہمارے اپنے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔