رسولِ رحمت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
‘‘اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو اگرچہ اپنے زیورات سے کیوں نہ ہو کیونکہ میں نے بہت سی عورتوں کو جہنم میں جلتے دیکھا۔
بے شک تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری بھی زیادہ کرتی ہو۔’’
(المستدرک للحاکم)
تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب کچھ بڑے ہو گئے اور قبیلہ بنو جرہم سے فصیح عربی زبان بھی سیکھ لی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ سلام الله علیہا وفات پا چکی تھیں تو آپ نے اسی قبیلہ کی ایک عورت عمارہ بنت سعد سے شادی کرلی۔
ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ملنے آئے، آپ گھر میں موجود نہ تھے۔ بہو سے ملاقات ہوئی وہ آپ کو پہچانتی نہ تھی۔ حضرت ابراہیم عليه السلام نے اس سے احوال پُرسی کی؟
تو اس نے جواب دیا کہ ہم بہت بُرے حال میں ہیں، بڑی تنگی اور زبوں حالی کا شکار ہیں یعنی اپنی تنگی اور فقر کا شکوہ کیا اور اپنے حالات کے متعلق الله تعالی کی رضا پر راضی نہ ہوئی۔
اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
"جب آپ کے خاوند آئیں تو انہیں میری جانب سے سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ تبدیل کر لیں۔"
جب سیدنا اسماعیل علیہ السلام واپس گھر آئے تو ان کی بیوی نے بڑے میاں کا سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا:
‘‘وہ میرے والد تھے، انہوں نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ میں تجھ سے علیحدگی اختیار کرلوں لٰہذا تم اپنے والدین کے گھر چلی جاؤ۔’’
یوں وہ عورت الله کی رضا پر راضی نہ رہنے کی پاداش میں اچھی رفاقت سے محروم ہو گئی۔ اس کے بعد سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے دوسرا نکاح فرمالیا۔ آپ کی یہ بیوی بڑی صابرہ و شاکرہ اور ہر حال میں اللہ کی رضا پر خوش رہنے والی تھیں۔
کچھ عرصہ کے بعد پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے ملنے آئے تو حسبِ سابق گھر پر اپنے فرزند سے ملاقات نہ ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے متعلق ان سے پوچھا تو اس بہو نے عرض کیا:
‘‘وہ تلاشِ رزق میں کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔’’
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا: ”تمہارے گھر کے حالات کیسے ہیں؟ اس شاکرہ عورت نے جواب دیا: ”الحمدللہ! ہم بہت اچھے حال میں ہیں۔“
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘اللہ تعالی تمہیں اپنی برکتیں عطا فرمائے جب تمہارے شوہر آئیں تو انہیں میرا سلام کہنا اور ساتھ ہی کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو قائم رکھنا۔’’
سیدنا اسماعیل السلام گھر آئے تو ان کی زوجہ نے بتایا:
”ایک خوش شکل بزرگ آئے تھے اور ان کے ساتھ یہ بات چیت ہوئی۔“
سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘وہ میرے والد گرامی تھے اور دروازے کی چوکھٹ یا دہلیز سے مراد تم ہو اور انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں اور تم سے اچھا برتاؤ کروں اور تمہاری شکرگزاری کا صلہ ہے۔’’
آپ نے پڑھ لیا نا کہ بے صبری کے باعث بُرے حالات آتے ہیں اور رضائے رب پر راضی رہنے کے انعامات ملتے ہیں۔
(جہنم کی مستحق عورتیں: ص، ۲۱)