ایک سائنسی قانون بھی ہے جسے آپ سماجی اور اخلاقی سطح پربھی انفرادی اور اجتماعی شکل میں روبہ عمل ہوتے بلکل اسی طرح دیکھ سکتے اور محسوس کرسکتے ہیں جس طرح سائنسی سطح پر اور وہ قانون جو کہ نیوٹن کے قوانین حرکت میں سے ایک ہے یہی بتاتا ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے جو مقدار میں عمل کے برابر اور سمت میں بلکل مخالف ہوتا ہے ۔
میٹرک اور انٹر کی طبعیات یا فزکس پڑھنے والے اس قانون سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ یہی قانون جب سماجی اور اخلاقی سطح پر عمل میں آتا ہے تو اسے عمل اور رد عمل کے قانون کی بجائے مکافاتِ عمل کا قانون کہا جتا ہے اور اسے سے متعلقہ کئی محاورے بھی دنیا کی ہر ایک زبان میں کم و بیش مستعمل ہیں جیسے اردو زبان میں جیسا کروگے ویسا بھرو گے یا دوسروں کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اس میں گر جاتا ہے وغیرہ۔
اب جو بات میں کرنے جارہا ہوں وہ شاید بہت سے لوگوں کی سمجھ میں اس طرح نہ آ پائے جسکا میں متمنی ہوں لیکن میں نے جیسا سمجھا اور محسوس کیا ہے ویسا لکھ دیا ہے اور یہ ایک طالب علمانہ رائے ہے جس سے اختلاف کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ آپ نے نیو ورلڈ آرڈر کا ذکر پچھلی صدی کے اواخر اور اس صدی کے اوائل میں ضرور سنا ہوگا جوکہ عالمی سامراج کا ایک ایسا منصوبہ اور نظام ہے جس کے تحت وہ ساری دنیا کے وسائل پر بلواسطہ اپنے پٹھوؤں کے یا بلا واسطہ یعنی براہ راست قابض ہونے کا اردہ کئے بیٹھے تھے۔
یہ عالمی سامراج کسی خاص ملک،سپر پاور یا قوم کو نہیں کہا جاتا بلکہ یہ مختلف اقوام اور طاقتور گروپس کا مجموعہ ہے جو اپنے مفادات کے لئے ساری دنیا کو اس خوبصورتی سے اپنا غلام بنا رہا تھا کہ غلام بننے والے بھی مست اور خوش اور بنانے والے بھی ۔سوائے ایک کمزور اقلیت کے جو ان سارے ارادوں کو سمجھنے اور بھانپنے کے بعد اپنی سی سعی ضرور کر رہے تھے اس نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف لیکن کامیابی کی صورت نہیں بن پا رہی تھی کہ اس نظام کے تقویت دہندگان اکثریت میں بھی ہیں اورمادی اعتبار سے بہت طاقتور بھی۔ اس نظام میں مختلف سطحوں پر مختلف حکمت عملیوں سے کام لیا جارہا تھا، مذہب اس نئے عالمی نظام کی بالا دستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا تھا اور مذاہب میں بھی خاص طور سے اسلام،جس کوغیر متعصب اہل علم و عقل برملا ہر دور کا روشن خیال ترین دین مانتے ہیں اور جو ہر دور کے انسانوں کی ذہنی،جسمانی،اخلاقی مادی اور روحانی تسکین کی ضروریات پوری کرنے کے سارے عوامل اپنے اندر بخوبی سموئے ہوئے ہے۔
تو اس مذہب اور اس کے ماننے والوں کو ملکوں کی سطح پر بھی اور افراد کی سطح پر بھی نشانے پر لیا گیا اور چن چن کر دنیا بھر میں مسلمان کہلانے والے ان ملکوں کو نشانہ بنانے کے ماسٹر پلان کا آغاز کیا گیا۔ یہ آغازبیسویں صدی کے بگ بینگ یعنی نائن الیون سے کیا گیا جو جانے خود ہی کرایا گیا تھا یا واقعتاً ہوا تھا ،یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن بہرحال اسی واقعے کو بنیاد بنا کر عالمی سطح پر نیو ورلڈ آڈر کے عاملین نے مسلم ددنیا میں بہانے بہانے سے تباہی پھیرنے کے عمل کا آغاز کردیا۔
افغانستان، شام،عراق، چیچنیا،بوسینیا، برما،ہندوستان(کشمیر اور دہلی دو حالیہ مثالیں) کو تباہ کرتے ہوئے اس ورلڈ آرڈر نے کم و بیش باقی دنیا کو اپنی ہیبت ناک مادی،سائنسی اور فوجی طاقت سے بری طرح مرعوب کرلیا اور معدودے چند طاقتور ممالک جیسے چین ،روس،ترکی پاکستان اور دیگر چند ایک ممالک کے سوا سب ہی ممالک یا تواس ورلڈ آرڈر کے حلقہ بگوش بن گئے یا پھر کم از کم کے درجے میں نیوٹرل رہے۔دنیا بھر میں معصوم لوگوں جس میں بہت بڑی اکثریت مسلمان کہلانے والوں کی تھی،کا خون بہتا رہا،جان مال کاروبار بڑی بے رحمی اور سفاکی سے ختم کئے جاتے رہے اور ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا راگ بھی الاپا جاتا رہا اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنی رہی،او آئی سی بھی بس اوہ آئی سی کہنے سے زیادہ کچھ کر نہیں سکی اور لوگ تڑپتے اور مرتے رہے،کشمیر میں جاری غیر انسانی کرفیو اور لاک ڈاؤن کو مہذب دنیا ایسے پی گئ جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں کیونکہ اس میں نشانہ بننے والے مسلمان تھے۔
ان گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ جان ،مال عزت آبرو،کاروباروں کی تباہی،قتل و غارت گری،فوجی ایکشن،دھماکے اور بربادی کے المیئے کس قوم نے جھیلے ذرا ڈیٹا اٹھا کر تو دیکھئے لگ پتہ جائے گا۔ اس ننھے شامی بچے کی ویڈیو ابھی زیادہ پرانی یہیں ہوئی جس میں وہ مرتے وقت کہہ رہا تھا کہ میں جاکر اللہ تعالی سے شکایت کروں گا۔ زیر دست اور کمزور مسلم ممالک میں جیسے جیسے وحشت اور بربادی کا راج بڑھتا گیا ویسے ویسے ورلڈ آرڈر والوں کی مستیاں،سرخ و سفید چہروں کی تمتماہٹیں ،مسکراہٹیں بڑھتی گئیں اور شامیں مزید جگمگانے لگیں اور وہ اپنی شیطانیت میں خود کو خدا سمجھنے جیسی کیفیات میں مبتلا ہوگئے تو پھر وہی ہوا جس کی تاریخ میں ہزاروں مثالیں عبرت کے لئے موجود ہیں کہ قدرت کاقانون مکافات عمل حرکت میں آگیا اور ایک ننھے سے کیڑے نے ایک چھوٹے سے وائرس نے، جو کہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ سوئی کی نوک پر ایسے ہزاروں وائرس جمع ہوجاتے ہیں،
زمینی خداؤں کو ان کی ساری سائنس،ٹیکنالوجی اور طاقت چھینے بغیر عالمی لاک ڈائون کرکے ان کی اوقات یاد دلا دی ہے۔اب شاید ان بالا دستوں کو بھی کمزور اور لاچار انسانوں کی تکالیف اور دکھوں کا کچھ احساس ہورہا ہوگا۔یہ عالمی وبا ان کے لئےایک انتباہ ،ایک وارننگ ہے عالمی بالادستی کے مجاورین کے لئے کہ اپنی اس سرکشی،شیطانیت اور حیوانیت سے باز آجاؤ، کہ اب بس کرونا،اور مت کرونا۔شاید یہ ایک موقع دیا گیا ہے کہ خود کو درست کرلو ،اپنی ترقی اور اپنی صلاحیتوں کو فلاح انسانیت کے لئے استعمال کرو،عالمی ماحولیاتی خطرات سے نپٹو،بھوک اور غربت کو دنیا سے ختم کرنے کی محنت کرو اور مشینوں کو تباہی نہیں بھلائی کے لئے استعمال کرو۔۔اور اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس وائرس کو اس عالمی وبا کو محض ابتدا سمجھنا اور یکے بعد دیگرے ایسی آفات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا جو تمھارے وہم و گمان سے بھی بہت اوپر کی ہونگی۔ تمھیں وہاں سے مار پڑے گی جہاں سے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ تو اس مکافات عمل کی یاد دلانے والے وائرس کو آگے چل کر بھی بھول نہ جانا تاکہ مکافات عمل کی نادیدہ مارسے آئندہ کے لئے بچت ہوسکے۔