پبلک ٹرانسپورٹ کی خستہ حالی اور ٹریفک کے مسائل کے باعث خواتین کیلئے موٹر سائیکل کی سواری اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ گزشتہ 3 برس کے دوران ملک میں خواتین بائیکرز کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ اسکول آف موٹرنگ لاہور (اسمائل) اور موٹر سائیکل اسمبلرز ایسوسی پاکستان (اے پی ایم اے) سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں 350 سے زائد خواتین روز مرہ کاموں کی انجام دہی کیلئے موٹر سائیکل استعمال کررہی ہیں۔ موٹر سائیکل پر آفس یا درس گاہ جانے کے علاوہ بعض خواتین موٹر سائیکل پر اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے بھی جاتی ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ملتان کی فائزہ نامی خاتون اپنے دو بچوں کو اسکول چھوڑنے اور پھر گھر واپس لانے کیلئے خود موٹر سائیکل چلاتی ہیں۔ فائزہ نے موٹر سائیکل چلانے کی تربیت اسمائل سے حاصل کی۔ واضح رہے کہ خواتین کے ٹرانسپورٹ سے متعلق مسائل دور کرنے کیلئے اسمائل نے 2012 میں پہلی بار خواتین کو موٹر سائیکل کی تربیت دینے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ خواتین کو تعلیمی اداروں کے گراؤنڈ میں موٹر سائیکل کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے اسمائل کے بانی آصف جاوید نے ’’واضح رہے‘‘ کو بتایا کہ مذکورہ خاتون کے بچے پہلے رکشہ پر اسکول جاتے تھے، جس کیلئے انہیں زیادہ فیس بھی ادا کرنا پڑتی تھی۔ تاہم فیس دینے کے باوجود وہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے فکرمند رہتی تھیں، جس پر انہوں نے موٹر سائیکل سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ اپنے بچوں اور محلے کے دیگر 2 بچوں کو بائیک پر بٹھا کر اسکول لے کے جاتی ہیں۔
لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے والد نے بھی اپنی بیٹی کو موٹر سائیکل سکھانے کیلئے اسمائل سے رجوع کیا۔ آصف جاوید کا کہنا ہے کہ مذکورہ شخص کو فروزن شولڈر کا مرض لاحق تھا اور ان کے گھر پر کوئی لڑکا نہیں تھا، جو ایمرجنسی کی صورت میں انہیں فوری طبی امداد کیلئے اسپتال لے جا سکے۔ لہذا انہوں نے اپنی بیٹی کو موٹر سائیکل کی تربیت دلائی، جو اب یونیورسٹی بھی موٹر سائیکل پر جاتی ہے۔
لاہور کی ہی ایک خاتون طیبہ طارق موٹر سائیکل پر لاہور سے خنجراب جانے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔ گزشتہ برس کراچی سے تعلق رکھنے والی اداکارہ سوہائے علی ابڑو نے بھی اپنی فلم کیلئے موٹر سائیکل چلانا سیکھی تھی۔ انہیں موٹر سائیکل سیکھنے میں 5 روز لگے۔عام طور پر خواتین زیادہ سے زیادہ 10 دن میں موٹر سائیکل چلانا سیکھ سکتی ہیں۔ خواتین کی حوصلہ افزائی کیلئے 2016 میں اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ (ایس ایم یو) کے تعاون سے کراچی میں بھی ویمن موٹر سائیکل ریلی نکالی گئی تھی، جس میں 20 سے زائد مقامی خواتین نے شرکت کی تھی۔
اس حوالے سے موٹر سائیکل اسمبلرز ایسوسی پاکستان (اے پی ایم اے) کے چیئرمین محمد صابر شیخ نے ’’واضح رہے‘‘ کو بتایا کہ کراچی میں ٹوٹی سڑکیں اور شدید ٹریفک کے باعث خواتین کا موٹر سائیکل چلانے کی طرف رحجان کم ہے۔ اس کے باوجود موٹر سائیکل کی سواری اس وقت خواتین کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے، کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔
دوسری جانب سابقہ پنجاب حکومت نے ’’ویمن آن وہیلز‘‘ پروجیکٹ کے تحت صوبے میں 3 ہزار خواتین کو موٹر سائیکل دینے کا اعلان کیا تھا، جس میں 100 فیصد مارک اپ صوبائی حکومت نے ادا کرنا تھا۔ 18 سے40 برس کی امیدواران کو 27 ہزار روپے کی ڈاؤن پے منٹ پر موٹر سائیکل فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جبکہ اسکیم کو شفاف بنانے کیلئے صوبائی ڈومیسائل، سی این آئی سی، میٹرک سرٹیفکیٹ سمیت دیگر اہم دستاویزات طلب کی گئی تھیں۔ تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد اس منصوبے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔