تازہ ترین
تعلیمی نظام میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیاں24 نومبر فیصلے کا دن، اس دن پتہ چل جائے گا کون پارٹی میں رہے گا اور کون نہیں، عمران خانایشیائی کرنسیوں میں گراوٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت ڈالر کو آگے بڑھا رہی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیاتاریخ رقم کردی؛ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑوں گا؛ ٹرمپ کا حامیوں سے فاتحانہ خطابیورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔

برآمدات کا فروغ۔ کراچی چیمبر کا پاکستانی سفارتخانوں کے ساتھ ویبنار شروع

KCCI initiates series of webinars with Pakistani diplomats abroad
  • واضح رہے
  • نومبر 3, 2020
  • 11:18 شام

پاکستانی تاجر چین کو برآمدات میں اضافے کے لیے ویلیو ایڈیشن پر توجہ دیں۔ شنگھائی میں پاکستان کے قونصل جنرل حسین حیدر

کراچی: شنگھائی میں پاکستان کے قونصل جنرل حسین حیدر نے زور دیا ہے کہ چین میں پاکستان کی برآمدات میں اضافے کے لیے تاجر و صنعتکار برادری کو ویلیو ایڈیشن پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ عام طور پر چین کو خام مال اور کم ویلیو ایڈڈ مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں جبکہ وہاں ویلیو ایڈیڈ مصنوعات کی بہت زیادہ مانگ ہے۔

اس بات اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے زیر اہتمام شنگھائی میں پاکستان کے قونصل خانے کے تعاون سے منعقدہ ویبنار سے خطاب میں کیا۔ ویبنار میں کے سی سی آئی کے صدر ایم شارق وہرا، سینئر نائب صدر ثاقب گڈ لک، نائب صدر شمس الاسلام خان، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی اور صنعتی ٹاؤن ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کے علاوہ تجارت و صنعت کے اہم نمائندوں نے بھی زوم کے ذریعے شرکت کی۔

پاکستانی قونصل جنرل نے اس بات کی نشاندہی کی کہ 2019 میں چین کو 551.2 ملین امریکی ڈالر مالیت کا خام تانبا ودیگر اجزاء کے علاوہ 351.95 امریکی ڈالر مالیت کا کاٹن یارن اور فیبرک بڑی مقدار میں برآمد کیا گیاجبکہ اپرل اور واون اپرل جیسی کچھ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات بالترتیب 47.49 ملین امریکی ڈالر اور 31.38 ملین ڈالر رہیں جو واضح طور پر یہ نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان نے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے بجائے زیادہ تر خام مال برآمد کرنے پر اپنی توجہ پر مرکوز رکھی۔انہوں نے بتایا کہ وائی آر ڈی خطہ جو چار صوبوں یعنی شنگھائی، جیانگ سو، جیانگ اور انہوئی پر مشتمل ہے سب سے زیادہ تکنیکی طور پر ترقی یافتہ خطہ ہے جہاں فی کس آمدنی بھی سب سے زیادہ ہے اور چین کی جی ڈی پی میں اس کی شراکت بھی سب سے زیادہ ہے۔

پاکستانی قونصل جنرل نے بتایا کہ یہ وہ خطہ ہے جہاں پاکستانی برآمد کنندگان کو ویلیو ایڈیشن پر توجہ دے کر تجارت کو فروغ دینے کی نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی اور ساتھ ہی ڈیجیٹلائزیشن پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جیسا کہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ وائی آر ڈی خطے میں بزنس ٹو بزنس اور بزنس ٹو کنزیومر دونوں کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے رسائی حاصل کرنے میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی قونصلیٹ نے شنگھائی میں کئی شعبوں کی نشاندہی کی ہے جس میں پاکستانی برآمد کنندگان کو ٹیکسٹائل اورملبوسات، ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل، گارمنٹس، طبی و آلات جراحی، کھیلوں کا سامان،فٹ بالز، آؤٹ ڈور گیمز سمیت ورزش کا سامان، چمڑے کاسامان بشمول صندوق، سوٹ کیس، بریف کیس، سنگھار دان اور لیدر ملبوسات وغیرہ شامل ہیں ان کی برآمدات کے مواقع تلاش کرنا ہوں گے جن میں پاکستانی مینوفیکچررز کو خصوصی مہارت حاصل ہے۔

انہوں نے کہاکہ کراچی اور شنگھائی کے مابین سسٹر سٹی کا درجہ معاشی تعاون کی ایک بنیاد بھی فراہم کرسکتا ہے۔ کراچی اور شنگھائی کے مابین تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعاون کو مزید تقویت دینے کے لیے کراچی چیمبر اور شنگھائی چیمبر کو آن لائن فورم کے ذریعے ایم او یو پر دستخط کرنا چاہیے کیونکہ مذکورہ ایم او یو جو اپریل 2020 میں شروع ہوا تھا اور اگست 2020 میں دونوں چیمبرز کے مابین اتفاق رائے ہوا تھا تاہم کرونا وائرس کے پھیلنے کے باعث اس ضمن میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

کے سی سی آئی کے صدر شارق وہرا نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین میں وائی آر ڈی خطے کا امیر ترین خطے میں شمار ہوتا ہے جو چینی جی ڈی پی میں 20 فیصد کا حصہ دار ہے اور اس نے وسیع پیمانے پر ترقی کی ہے جہاں پوری دنیا سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے لہٰذا ہمیں خصوصی طور پر اس خطے میں پاکستانی تاجروصنعتکار برادری کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنا ہوں گے۔ انہوں نے وائی آر ڈی خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات کی نشاندہی کرنے میں پاکستان کے قونصل جنرل سے تعاون کی درخواست بھی کی۔

شارق وہرا نے کہاکہ مختلف وجوہات کی بناء پر چین میں پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے صورتحال کبھی اتنی پرکشش نہیں رہی۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے یورپ، خلیجی ممالک میں سرمایہ کاری کی ہے لیکن چین میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی جس کی وجہ چینی ثقافت وزبان سے کم علمی اور نان ٹیرف اور ٹیرف رکاوٹیں ہیں۔ہم نے کبھی بھی چینی مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی جہاں امریکا، جاپان، روس اور بہت سے دوسرے ممالک نے خاطر خواہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی تاجروصنعتکار برادری کو چین بھرمیں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کا مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنا ہوں گے۔

انہوں نے چین میں ای کامرس کے بہت زیادہ استعمال کا ذکر کیا جہاں آن لائن749 ملین صارفین دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کہ اگرچہ علی بابا ڈاٹ کام چین کا سب سے بڑا خرید و فروخت کا پورٹل ہے لیکن یہ پورٹل کراچی کے تاجروصنعتکاروں کو ایک ایجنٹ کے ذریعے محدود پیمانے پر خدمات پیش کرتا ہے جو اس بڑے پلیٹ فارم کو اپنی خرید و فروخت کی ضروریات کے لیے استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ادائیگیوں کا مناسب طریقہ کارموجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس سہولت سے فائدہ اُٹھانے سے قاصر ہیں۔اس سلسلے میں شنگھائی میں پاکستانی قونصلیٹ کواس معاملے کو علی بابا ڈاٹ کام کی انتظامیہ کے ساتھ اٹھانا چاہیے تاکہ وہ ادائیگیوں کے لئے ایسی سہولت فراہم کریں جسے اسٹیٹ بینک کی بھی اجازت حاصل ہو کیونکہ اسٹیٹ بینک نے فی الحال پے پال اور آن لائن ادائیگیوں کے کئی دوسرے ذرائع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ اگرچہ اسٹیٹ بینک وقتاً فوقتاً یہ یقین دہانی کراتا رہا ہے کہ ڈیجیٹل ادائیگی کی خدمات فراہم کرنے کے لیے طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے اور جلد ہی اس کا آغاز کردیا جائے گا مگر یہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے زیر التوا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسٹیٹ بینک اس بار عمل درآمد کو تیز کرے گا اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کی اجازت دینے کے لیے طریقہ کار کا آغاز کرے گا جس کو تاجر برادری کی جانب سے وسیع پیمانے پرسراہا جائے گا۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے