مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے جعلی انکاؤنٹرز اور کشمیریوں کے قتل عام پر بھارت کے اندر آوازیں اٹھنے لگیں۔ سرچ آپریشن کے نام پر جعلی انکاؤنٹر کرنے والے بھارتی فوجیوں کیخلاف قتل کے مقدمات اور قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ ساتھ پھانسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ 18 جولائی کو شوپیاں میں جن نوجوانوں کو علاقے کی کفل بندی کے دوران بے دردی سے شہید کیا گیا ان میں سے ایک ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک تو مجھے بچوں کی لاشیں چاہئیں۔ میرا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ملوث فوجیوں کو پھانسی کی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے دردناک واقعات پیش نہ آئیں۔
سری نگر میں بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں کئے گئے جعلی سرچ آپریشن پر جمعے کو ایک بیان جاری کیا۔ اور کہا کہ مجاز انضباطی اتھارٹی نے بادی النظر میں مقابلے میں تین نوجوانوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت انضباطی کارروائی شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ جھڑپ کے دوران بادی النظر میں متنازعہ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (افسپا) 1990 کا حد سے زیادہ استعمال ہوا ہے نیز بھارتی فوجی سربراہ کی آپریشنز سے متعلق ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ جعلی مقابلے کے تین ہفتے بعد شوپیاں میں لاپتہ ہونے والے راجوری کے تین نوجوان مزدوروں کے والدین نے لاشوں کی تصویریں دیکھ کر ان کی شناخت اپنے بیٹوں کے طور پر کی تھی۔
محمد یوسف نے بتایا کہ ابرار احمد، محمد ابرار اور امتیاز احمد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ امتیاز احمد مزدوری کرنے کے لیے شوپیاں گیا ہوا تھا۔ امتیاز نے ابرار احمد اور محمد ابرار کو بھی فون کر کے وہاں بلا لیا۔ دونوں یہاں سے 15 جولائی کو روانہ ہو کر 130 کلو میٹر کا دشوار گزار پہاڑی راستہ طے کرتے ہوئے 17 جولائی کو وہاں پہنچے۔ رات کے آٹھ بجے انہوں نے ہمیں فون کیا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ پونے نو بجے سے ہمارا ان کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔ یہی وہ رات ہے جس دوران انہیں قتل کیا گیا ہے۔
محمد یوسف کے مطابق تینوں نوجوانوں کے پاس شناختی دستاویزات تھے لیکن فوج نے ان کی شناخت کو چھپاتے ہوئے انہیں ضلع بارہمولہ کے علاقے گانٹہ مولہ میں واقع غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دفن کروایا۔ جب ہمارا اپنے بچوں کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا تو ہمیں لگا کہ انہیں شاید قرنطینہ میں بھیجا گیا ہے۔ تین ہفتے انتظار کرنے کے بعد میں نے 9 اگست کو کوٹرنکہ پولیس تھانے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ اس کے بعد ہی کیس کی تحقیقات شروع کی گئی۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکن پرویز امروز نے برطانوی اکبار کو بتایا کہ یہاں جعلی مقابلوں اور انکاؤنٹرز کا وقوع پذیر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ فوج نے فرضی جھڑپ میں نوجوانوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔ بھارتی فوج کو اب اپنی تحقیقات پبلک ڈومین میں بھی لانی چاہئیں۔ ملوثین کی فہرست جاری کرنی چاہئیں۔ کیونکہ جعلی مقابلے میں کسی کو مارنا ایک سنگین جرم ہے۔
پرویز امروز کے مطابق تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کام پولیس کا ہے لیکن یہاں یہ مسئلہ ہے کہ پولیس آزاد نہیں ہے۔ کشمیر پولیس وہی کچھ کرتی ہے جو اس کو کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مقامی پولیس فوج سے ڈرتی ہے۔ معاملے میں پولیس کی طرف سے ہمیں ابھی تک کوئی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔
ادھر کشمیر پولیس کے سابق سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بے گناہ نوجوانوں کو مارنا اور پھر انہیں دہشت گرد بتانا ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔ ملوث اہلکاروں کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔ جبکہ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے بھی ٹوئٹ میں فوجیوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ مقتول نوجوانوں کے لواحقین مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ ان کے بچے بے گناہ ہیں۔ انضباطی کارروائی شروع کرنے سے پتا چلتا ہے کہ فوج ان خاندانوں کے بیان سے اتفاق کرتی ہے۔ کارروائی کا عمل شفاف طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہیئے اور قصورواروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔