پاکستان آموں کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں اور درآمدات کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستانی آم اپنی لذت، ذائقے اور خوشبو کے حوالے سے پوری دنیا میں الگ پہچان رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درآمدات کی ناکافی سہولتوں کے باوجود یہ ملکی سوغات یورپ، کینیڈا، امریکہ، جاپان اور خلیجی ممالک سمیت 40 ممالک کو ایکسپورٹ ہوتی ہے۔
وکی پیڈیا پر درج معلومات کے مطابق آم کا آبائی وطن ملائیشیا ہے۔ یہ جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے تمام استوائی ممالک میں کاشت ہوتا ہے۔ پاکستان اس کی نت نئی اقسام کا اہم پیداواری مرکز ہے۔ خصوصاً پاکستانی سندھڑی، چونسہ اور انور رٹول دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں۔
ملک میں آم کے اہم پیداواری خطے، سندھ میں میرپور خاص، حیدر آباد، ٹنڈو الہ یار اور مٹیاری کے اضلاع ہیں، جبکہ پنجاب کے پیداواری اضلاع میں ملتان، شجاع آباد اور رحیم یار خان شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سندھڑی آم صوبہ سندھ اور چونسہ اور انور رٹول جنوبی پنجاب کی سوغات ہیں۔ پاکستان میں آم کا سیزن مئی کے اوائل سے اگست کے اواخر تک چلتا ہے۔ جبکہ مشہور ترین اقسام میں لنگڑا، سرولی، دسہری، سندھڑی، گلاب خاص، ثمر بہشت، بیگن پھلی، طوطا پری، چونسہ، انور رٹول اور کالا چونسہ آم شامل ہیں۔
ملکی پیداوار کا 70 فیصد سندھ سے حاصل ہوتا ہے، جس میں سندھڑی سرفہرست ہے۔ سندھڑی کی کئی ذیلی اقسام بھی مقامی طور پر تیار کی گئی ہیں، جن میں گلاب خاص اور ثمر بہشت بھی شامل ہیں۔ سندھڑی پاکستانی آموں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔
1909ء میں سندھ ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے مدراس (موجودہ بھارت) سے ساؤتھ انڈین قلمی آم کے چار پودے منگوائے تھے، تاکہ اس نسل پر تحقیقی کام کرکے سندھ کی آب و ہو کے موافق ڈھالا جاسکے۔ ان میں سے دو پودے، دین محمد جونیجو (سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دادا) کو دیئے گئے اور بقایا دو پودے ایک دوسرے زمیندار، صمد کاچھیلو کو فراہم کیے گئے۔
انہوں نے اس کی قلموں کی پیوند کاری کے ذریعے ایک نئی نسل تیار کی جسے سندھڑی کا نام دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس نسل پر مزید تجربات کرکے سندھڑی کی ذیلی اقسام بھی تیار کی گئیں۔ سندھ میں آموں کے ڈیڑھ سو سے زائد باغات موجود ہیں، جن میں اسد جونیجو فارم، کاچھیلو فارم، بھگیو فارم، گل محمد رند فارم، نواز آباد فارم، سید عنایت علی شاہ فارم، گبول فارم، لغاری فارم، مگسی فارم اور بھرگڑی فارم کافی معروف ہیں۔
سندھڑی کی طرح انور رٹول بھی بنیادی طور پر بھارتی نسل ہے۔ تاہم جنوبی پنجاب کا انور رٹول اپنی لذت، رنگ اور خوشبو میں دنیا بھر میں ممتاز ہے۔ مختلف دیسی قلمی آموں کے اختلاط سے یہ نسل ضلعی یو پی کے قصبے رٹول کے ایک کاشتکار، انوار الحق نے 1930ءکی دہائی میں تیار کی تھی۔
بعد ازاں ملتان کے مینگو فارمرز نے اس کی قلمیں ملتان اور رحیم یار خان میں بوئیں تو بہترین نتائج سامنے آئے۔ انور رٹول کا حجم سندھڑی کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے گودے کا رنگ نارنجی مائل اور ذائقہ انتہائی شیریں، جب کہ اس کی تیز اور منفرد خوشبو بھی اسے آموں کی دیگر اقسام سے ممیّز کرتی ہے۔
میٹھے، رسیلے، مہکتے آموں کی لذت کا ایک عالم اسیر ہے۔ عوام و خواص نہ صرف خود اس نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہیں، بلکہ بطور سوغات ایک دوسرے کو بھجواتے بھی ہیں۔
ہر سیزن میں حکومت پاکستان کی طرف سے غیر ملکی سربراہان مملکت کو خصوصی طور پر آم بھجوائے جاتے ہیں۔ برطانوی شہزادے چارلس کی لیڈی ڈیانا سے شادی کے موقع پر اس وقت کے صدر پاکستان ضیا الحق نے گلاب خاص آموں کا تحفہ بھجوایا تھا۔ اس سے ”گلاب خاص“ عالمی توجہ کا مرکز بنا اور پاکستانی آموں کو یورپ میں بے مثل پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔