عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جو جو کام لینا چاہتی تھی وہ اس نے لے لئے ہیں۔ اب انہیں صدر ٹرمپ کے سہارے کی مزید ضرورت نہیں ہے، جس کے سبب گمان کیا جا رہا ہے کہ اگلے ماہ ہونے والے صدارتی الیکشن میں کامیابی کا سہرا جو بائیڈن کے سر ہوگا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ 77 سالہ جو بائیڈن کی زندگی کے 47 برس سیاست میں گزرے ہیں اور وہ اس عرصے میں ہر سطح پر فتوحات کے جھنڈے گاڑتے آئے ہیں۔ آئیے۔۔۔۔۔۔۔ ان کی زندگی اور سیاسی کیریئر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
جو بائیڈن 20 نومبر 1942ء میں ریاست پنیسلوینیا کے قصبے سکرنیٹن میں عام محنت کش والدین کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد جوزف بائیڈن بھٹیوں کی چمنیوں کو صاف کرنے کا کام کرتے تھے اور ان کی والدہ کیتھوین یوجینیا ایک روایتی کیتھولک خاتون تھیں۔ لیکن جو بائیڈن بتاتے ہیں کہ جب کبھی وہ محلے کے دوسرے لوگوں سے مار کھاکر منہ لٹکائے گھر آتے تو ان کی ماں انہیں کہتیں تھیں ان کی ناک سے خون بہاکر آؤ تاکہ تم اگلے دن سر بلند کرکے اپنی گلی سے گزر سکو۔ بائیڈن کے مطابق ان کے والدین نے ان کو سخت جان بنایا تاکہ وہ زندگی کا مقابلہ کرسکیں۔
جو بائیڈن بچپن میں ہکلاتے تھے ان کا مذاق اڑایا جاتا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر اپنی ہکلانے کی عادت پر قابو پانے کیلئے وہ شیشے کی گولیاں اپنے منہ میں ڈال کر بات کرتے اور لمبی لمبی نظمیں آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر یاد کرتے۔
آرچ میئر اکیڈمی میں بائیڈن ایک اچھے طالب علم تھے۔ دراز قد نہ ہونے کے باوجود وہ اسکول کی فٹبال ٹیم میں شامل ہوئے تھے جو بائیڈن نے اس اسکول سے1961ء میں اپنی تعلیم مکمل کی، جو بائیڈن نے اپنے گھر کے قریب واقع یونیورسٹیی آف ڈلاوئیر سے تاریخ اور سیاسیات میں بی اے کیا۔
اپنی تعلیم کے دوران وہ بہاما کے جزائر پر سیر کرنے گئے تھے جہاں سرے کیوز یونیورسٹی کی طالبہ نیلیہ ہنٹر سے ان کی ملاقات ہوئی، یہ ملاقات پہلی نظر کی محبت میں تبدیل ہوگئی۔ اس لڑکی سے ملنے کے لئے انہوں نے محنت کی اور سرے کیوز میں قانون کے شعبہ میں داخلہ حاصل کرلیا۔ انہوں نے 1965ء میں قانون کی تعلیم شروع کی اور ایک برس بعد نیلیہ سے شادی کرلی۔
1968ء میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جو بائیڈن ولمنگٹن منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے ایک کمپنی میں وکالت کا آغاز کیا۔ یہیں وہ ڈیموکرٹیک پارٹی کے ایک متحرک رکن بن گئے۔ 1970ء میں وہ نیو کاسل کاؤنٹی کونسل (مقامی حکومت) کے رکن منتخب ہوئے۔
کونسلر ہوتے ہوئے بھی انہوں نے وکالت جاری رکھی، اسی دوران ان کے ہاں تین بچے، دو بیٹے اور ایک بیٹی جوزف بائیڈن تھرڈ، ہنٹر بائیڈن اور نومی بائیڈن پیدا ہوئے۔
1972ء میں ڈیموکرٹیک پارٹی نے انہیں ریپبلکن پارٹی کے ایک مضبوط امیدوار جے کیلب بوگس کے خلاف امریکی سینیٹ کا انتخاب لڑنے کیلئے آمادہ کیا۔ مقابلہ بہت کانٹے دار ہوا اور ووٹر بھی زیادہ تعداد میں پولنگ اسٹیشنوں پر آئے۔ نتیجہ جب نکلا تو بہت سارے لوگوں کو بائیڈن کی کامیابی پر حیرت ہوئی۔ اس طرح وہ ملک کی تاریخ کے پانچویں کم عمر سینیٹر منتخب ہوئے۔
ان دنوں میں جب وہ سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھانے والے تھے، ان کی بیوی اور تین بچے کار حادثے کا شکار ہوئے۔ ان کی بیوی بچوں کے ہمراہ کرسمس کے موقع پر کچھ شاپنگ کرنے گئی تھیں کہ راستے میں ایک ٹریکٹر ان کی گاڑی سے ٹکڑا گیا۔ اس حادثے میں ان کی بیوی نیلیہ اور بیٹی نومی موقع پر ہی ہلاک ہوگئیں۔ جبکہ دونوں بیٹے شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے، جو بائیڈن حلف اٹھائے بغیر اسپتال روانہ ہوئے اور اپنے بچوں کے ساتھ اسپتال میں رہے اور بعد میں وہیں بچوں کے بیڈ کے ساتھ کھڑے ہوکر سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔
اس کے بعد انہوں نے سینیٹ کے جتنے بھی انتخابات لڑے ان سب میں کامیاب ہوئے۔ ان کے حلقے کے لوگوں نے انہیں اس المیے کے بعد غیر رسمی طور پر اپنا ایک مستقل نمائندہ قرار دے دیا جو بائیڈن سینیٹ کی اہم کمیٹیوں کے رکن رہے۔
انہوں نے روس کے ساتھ اسلحے کی دوڑ پر قابو پانے کا بھی معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جو بائیڈن سینیٹر ٹیڈکینڈی کے ہمراہ سینیٹ کی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ جس نے رونلڈ ریگن کی جانب سے نامزد جج رابرٹ بروک کو جج بننے سے روکا تھا۔ بروک دائیں بازو کے نظریاتی انتہا پسند قانون داں تھے۔ جنہوں نے صدر نکسن کے چند مبینہ غیر قانونی اقدامات کو عملی جامعہ پہنایا تھا اورانہیں خواتین اور سیاہ فام اقلیتوں کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔
جو بائیڈن نے 1977ء میں جِل سے دوسری شادی کی۔ ان دونوں کی بیٹی ایشلی 1981ءمیں پیدا ہوئیں۔ 2015ء میں جو بائیڈن کی پہلی بیوی سے ہونے والے بیٹے کی کینسر کی وجہ سے موت ہوگئی۔ اس موت کے بعد ایک مرتبہ پھر جو بائیڈن کا غم ان کے سیاسی کیرئیر میں اضافے کا اہم سبب بنا۔ جو بائیڈن کی نائب صدارت کے بعد جب ڈونالڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے ان پر سخت تنقید کی اور کہا کہ ٹرمپ کو حکمرانی کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
کچھ عرصے کی غیر واضح پوزیشن کے بعد جو بائیڈن نے 2019ء میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔