کورونا ویکسین کیلئے پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر، متوسط اور غریب ممالک کی نظریں مغرب کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ 300 برس قبل ویکسین ایک مسلمانوں نے ایجاد کی تھی۔ جی ہاں! یورپ کو پہلی بار ویکسین سے مسلم دنیا نے روشناس کرایا تھا۔
ویکسین کی تاریخ میں ہندوستانی تہذیب کا بھی بڑا حصہ ہے۔ جبکہ اس پوری کہانی میں گائے کی بڑی اہمیت ہے۔ حتیٰ کہ لاطینی لفظ ویکسین کا پہلے نصف حصے کا مطلب ہی گائے ہے۔
مغرب کے نوآبادیاتی اثرورسوخ کی وجہ سے سے دنیا کے بیشتر لوگ برطانوی ڈاکٹر ایڈورڈ جینر کو ویکسین کا موجد سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جینر کے کام شروع کرنے سے نصف صدی پہلے برطانیہ میں ویکسین لگائے جانے کا آغاز ہو چکا تھا اور اس سے کچھ عرصہ قبل یہ سلطنت عثمانیہ سے وہاں پہنچی تھی۔
یہ ویکیسن چیچک نامی اس بیماری کے خلاف تھی، جو کبھی کورونا سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ چیچک کا آج دنیا سے خاتمہ ہو چکا ہے اور اس کا نام سن کر ہمیں وہ خوف محسوس نہیں ہوتا جو کورونا سے منسوب کیا جاتا ہے۔
کروڑوں لوگوں کے چہرے سمیت جلد پر گڑھا نما داغ چھوڑنے اور لاکھوں کی موت کا سبب بننے والی چیچک کی بیماری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 10 ہزار برس قبل مسیح میں شمال مشرقی افریقہ سے اس وقت شروع ہوئی۔ جب انسانوں نے وہاں زراعت کا آغاز کیا۔ وہاں سے قدیم مصری تاجر یہ بیماری ہندوستان لے گئے۔
1122 قبل مسیح میں چین اور بھارت میں اس بیماری کی موجودگی کے شواہد ملتے ہیں۔ مزید پانچ سے چھ سو برس بعد یہ 5 ویں سے 7 ویں صدی عیسوی کے درمیان بیماری یورپ پہنچی۔
چیچک نے رومی سلطنت کی معیشت کے ساتھ وہی کچھ کیا جو کورونا وائرس دنیا کی معیشتوں کے ساتھ کیا ہے۔ رومن ایمپائر کے زوال میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس دوران یورپ میں 70 لاکھ افراد چیچک سے ہلاک ہوئے۔ اس سے کہیں بڑی تعداد میں امریکہ کے آبائی باشندے مارے گئے۔ جن تک یہ بیماری یورپی حملہ آوروں نے پہنچائی۔
18 ویں صدی کے آغاز تک یورپ میں ہر برس چار لاکھ افراد چیچک سے ہلاک ہو رہے تھے۔ یہی وہ وقت تک تھا جب اسلامی تہذیب نے یورپ کی مدد کی۔ 18 ویں صدی کے آغاز میں سلطنت عثمانیہ میں ویکسین کے ذریعے لوگوں کو چیچک سے محفوظ کرنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ اس عمل کو ''چیچک آشیسے'' کہتے تھے۔ جس کے لفظی معنی ہیں ''چیچک کا ٹیکہ''۔
1716ء سے 1718ء کے دوران استنبول میں برطانوی سفیر کی اہلیہ کا نام لیڈی میری مونٹاگیو تھا۔ وہ خاصی فعال خاتون تھیں اور ان کی ایک وجہ شہرت ان کے تحریر کردہ خطوط ہیں۔ لیڈی مونٹاگیو نے ویکسین کے بارے میں سنا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو ویکسین لگانے کی اجازت دے دی۔
ویکیسن کے کامیاب اثرات دیکھ کر لیڈی مونٹاگیو نے اس بارے میں خطوط لندن بھیجنا شروع کر دیئے۔ کچھ عرصے بعد جب وہ واپس گئیں تو انہوں نے ویکیسن کی حمایت میں مہم چلائی۔ 1724ء میں مونٹاگیو خاندان کے ڈاکٹر ایمانیوئل ٹمونی نے ویکسینیشن کے عمل کی پوری تفصیل رائل سوسائٹی آف سائنس کو فراہم کی۔
لندن میں طرابلس کے سفیر جاسم آغا نے بھی قیمتی معلومات فراہم کیں اور یوں برطانیہ میں لوگوں کو چیچک سے بچائو کی ویکسین لگنا شروع ہوگئی۔ یہ ڈاکٹر جینر کے دور سے نصف صدی پہلے کی بات ہے۔
ڈاکٹر جینر نے 1796ءمیں ویکسین کی تیاری میں جو حصہ ڈالا۔ وہ ترکوں کے حصے کے مقابلے میں کافی کم تھا۔ چیچک سے بچائو کے لیے چیچک کو ہی استعمال کرنے کا اچھوتا خیال صدیوں قبل چینیوں یا ہندوستانیوں کے ذہن میں آیا تھا۔
بعض روایات کے مطابق چین سے ہندوستانیوں نے سیکھا اور بعض روایات کے مطابق ہندوستان سے چینیوں نے نقل کی۔ معروف مورخ ول ڈیورنٹ کے مطابق ہندوستان کے لوگ 500 برس قبل مسیح میں ویکسی نیشن کے نظریے سے واقف تھے۔
بنیادی خیال یہ تھا کہ جس شخص کو چیچک ہو۔ اس سے صحت مند شخص کو ذرا سی بیماری لگا دی جائے تاکہ مستقبل میں بیماری کے بڑے حملے سے وہ محفوظ ہو جائے۔ آج بھی ویکیسنز اسی اصول پر کام کرتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے متاثرہ شخص کے زخم سے پیپ لے کر صحت مند شخص کو سنگھائی جاتی تھی یا پھر متاثرہ شخص کے کپڑے صحت مند شخص کو پہنائے جاتے تھے۔ یہ کوئی زیادہ محفوظ طریقہ نہیں تھا۔ نہ ہی یہ باقاعدہ ویکسین تھی۔ اسے ویکسی نیشن کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں۔
ترکوں نے کمال یہ کیا کہ چیچک کے متاثرہ شخص کی پیپ کو خشک کر کے اس انداز میں ذخیرہ کرنے کا انتظام کر لیا کہ مستقبل میں لوگوں بالخصوص بچوں کو ٹیکے کی صورت میں لگائی جا سکے۔ یہی وہ طریقہ تھا جو لیڈی مونٹاگیو اور انگریز ڈاکٹروں نے دیکھا اور پھر برطانیہ میں متعارف کرایا۔
ترکوں کی کامیابی یہ تھی کہ وہ جہاں بھی گئے اس ویکسین کو ساتھ لے کر گئے۔ چیچک کی ویکسین میں ڈاکٹر ایڈورڈ جینر کا کردار اتنا تھا کہ انہوں نے انسانوں کی چیچک سے ویکسین بنانے کے بجائے گائے سے چیچک لے کر ویکسین بنانا شروع کر دیا۔
ان کا یہ کارنامہ ”جینر میتٹھ“ کہلایا۔ ڈاکٹر جینر نے ثابت کیا کہ انسانوں کی چیچک کے بجائے گائے کی چیچک زیادہ محفوظ ہے۔ کیونکہ اس سے بنی ویکسین لگوانے والا زیادہ بیمار نہیں ہوتا اور انسانی چیچک سے محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔ 1796ء میں انہوں نے ایک سات برس کے بچے کو یہ ویکسین لگائی۔
کامیاب تجربے کے بعد انگلستان میں بچوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوگیا۔ گائے سے حاصل چیچک کے سبب ہی اسے ویکسین کہا جانے لگا۔
لاطینی لفظ vac کا مطلب ہے گائے۔ تاہم گائے کی چیچک سے ویکسین کا خیال بھی کوئی اچھوتا نہیں تھا۔ ول ڈیونرٹ کے مطابق دوسری صدی عیسوی کے ہندوستانی ماہرین طب دھنونتری اپنی کتابوں میں یہ خیال پیش کر چکے تھے۔ واضح رہے کہ دھنونتری ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق وشنو کے ایک اوتار ہیں۔
ہندوستان اور چین میں ویکسی نیشن کا بنیادی نظریہ صدیوں سے موجود تھا۔ اسے مغرب تک پہنچانے میں مسلمانوں کا کردار کلیدی ہے۔ برطانیہ میں ویکیسن متعارف کرائے جانے کے بعد کہانی نے ایک دلچسپ موڑ لیا۔ ترکی سے آنے والی ویکسین کے معاملات انتہائی شفاف تھے۔ ڈاکٹر جینر کی تیار کردہ ویکسین کچھ اسرار کے پردوں میں لپٹی تھی۔
کچھ عرصے بعد جب سائنس نے ترقی کی۔ جراثیم تھیوری میں اضافہ ہوا اور نئے طریقے سے ویکسین بننے لگی تو برطانوی حکام نے پرانے طریقے سے ویکسین لگانے پر پابندی عائد کر دی۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے بچوں کو ویکسین لگانا لازمی قرار دے دیا۔ انکار کرنے والے والدین پر جرمانے عائد کیے جاتے۔
ویکسین کے حوالے سے پراسراریت اور حکومتی زور زبردستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام نے احتجاج شروع کر دیا۔ زبردستی ویکسین لگانے پر کئی ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے بھی اعتراف کیا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر ایلفرڈ رسل ویلس تھے۔
انہوں نے ویکسین کے نقصانات پر اعداد و شمار بھی پیش کیے۔ برطانوی میڈیا میں ویکسین کے خلاف مضامین اور کارٹون شائع ہوتے تھے۔ ایک کارٹون میں دکھایا گیا کہ لوگ ڈاکٹر جینر سے ویکیسن لگوا رہے ہیں اور ان کے جسموں سے گائیں نکل رہی ہیں۔ ایک اور کارٹون میں ویکسین کو سانپ قرار دیا گیا۔
حکومت نے ویکسین لگوانے سے انکار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کیا تو بڑے مظاہرے ہوئے۔ مارچ 1885ء میں لیسسٹر میں ہونے والے ایسے ہی ایک مظاہرے میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی۔ اس احتجاج کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ویکسین لگائے جانے کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو رہے تھے۔
بالآخر 1898ء میں حکومت نے قانون میں ترمیم کرکے اجازت دے دی کہ جو والدین اپنے بچوں کو ویکسین نہ لگوانا چاہیں۔ وہ ایک سرٹیفکیٹ لے کر انکار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کی اجازت امریکہ میں بھی موجود ہے۔
جہاں بیماری سے بیماری کے علاج کا خیال یا نظریہ مشرق سے مغرب کو منتقل ہوا۔ وہیں ویکیسنیشن کے حوالے سے پراسراریت اور جبر کی پالیسی مغرب سے مشرق کو ملی۔