نیرو ان صلاحیتوں کے علاوہ بلا کا خود پرست بھی تھا۔ اسی نیرو کے بارے میں مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو وہ بانسری بجانے میں مصروف رہا۔ جولائی 64 عیسوی میں ایک بھیانک آگ چھ دن تک روم میں بھڑکتی رہی۔ شہر کا 70 فیصد علاقہ جل گیا۔
بطور حکمران آگ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کی ذمہ داری نیرو کی تھی۔ لیکن اس نے کچھ نہیں کیا۔ ”روم جلتا رہا اور نیرو بانسری بجاتا رہا“۔ یہ محاورہ آج کسی بھی بادشاہ کی بے حسی اور نالائقی کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں تک کی کہانی بہت مشہور ہے۔ لیکن تاریخ میں دلچسپی نہ رکھنے والے لوگ نہیں جانتے کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا اور وہ کیا حالات تھے کہ محض چار برس بعد نیرو موت کو گلے لگانے کے لیے مجبور ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ آگ سے جل کر جب روم کا ایک بڑا حصہ خالی ہو گیا تو نیرو نے اس جگہ پر اپنا عظیم الشان سنہری محل بنوایا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں روم میں آگ بھی نیرو نے خود لگوائی تھی۔ کیونکہ پرانا شہر نیرو کے جمالیاتی تصورات (aesthetics) سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ وہ اسے تبدیل کرنا چاہتا تھا۔
آگ نے شہر کو جلا دیا۔ سانحے کے پیچھے نیرو کے کردار کی باتیں ہونے لگیں۔ لیکن حرفوں سے بنے نیرو نے تمام تر الزام عیسائیوں پر عائد کر دیا اور خود وقتی طور پر عوام کے غیظ و غضب سے بچ گیا۔
عیسائی اس وقت ناپسندیدہ سمجھے جاتے تھے۔ نیرو کو الزام کا رخ موڑنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ تاہم اس آگ کے کچھ ہی عرصے بعد روم میں بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ یہ بغاوتیں ”رومن ریاست کو بادشاہ سے بچانے“ کے نام پر ہو رہی تھیں۔
نیرو سن 54 عیسوی میں حکمران بنا تھا۔ پہلے سال اس کی حکومت بہتر چلتی رہی۔ لیکن اپنی ماں اگریپینا کے مرنے کے بعد وہ اچھے برے کی تمیز کھو بیٹھا۔ 62 عیسوی میں اس کا اہم مشیر بوروس بھی چل بسا۔
اسی برس نیرو نے پہلی بار ایک سیاستدان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد اس نے دو مخالفین کو سزائے موت دی۔ 64 عیسوی میں روم کے جلنے کا واقعہ پیش آیا۔
اگرچہ مورخین کا کہنا ہے کہ نیرو کے بانسری بجانے کا دعویٰ درست نہیں۔ کیونکہ اس وقت بانسری ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ تاہم وہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو گانے بجانے میں لگا تھا۔
مورخین کے مطابق نیرو ٹرائے کے جلنے کا نوحہ پڑھ رہا تھا۔ بطور شاعر اس کی یہ نوحہ گری برمحل تھی۔ لیکن بطور حکمران یہ اس کی بہت بڑی ناکامی تھی کہ آگ بجھانے کے بجائے وہ شاعری میں مگن رہا۔
بعض تاریخ داں یہ بھی کہتے ہیں کہ نیرو نے روم اس لیے جلایا تھا کہ وہاں چوہے بہت ہوگئے تھے اور طاعون پھیلنے کا خدشہ تھا۔ اس اعتبار سے بھی مثالی طرز حکمرانی نہ تھا۔
دو برس بعد جب روم میں بغاوتیں شروع ہوئیں تو نیرو نے حسب روایت خود پسندی سے کام لیا اور ان بغاوتوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ بغاوت کرنے والا پہلا اہم سیاستدان گائیس پیسو تھا۔
پیسو اور اس کے ساتھیوں نے ”ریاست کو بچانے“ اور روم میں جمہوریہ کی بحالی کے لئے مہم چلائی۔ نیرو یہ بغاوت کچلنے میں کامیاب رہا۔ بیشتر باغیوں کو پھانسی دے دی گئی۔
لیکن 68 عیسوی میں مغربی یورپ اور ہسپانیہ میں رومن سلطنت کے دو صوبائی گورنرز نے بغاوت کر دی۔ ایک گورنر مارا گیا۔ دوسرا گالبا تھا جو آگے بڑھتا گیا۔ کچھ عرصے بعد فوجی افسران نے نیرو کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
گالبا پیش قدمی کر رہا تھا۔ نیرو نے پہلے بھاگنے کی کوشش کی۔ پھر اپنے محل میں لوٹ آیا۔ ایک صبح سو کر اٹھا تو معلوم ہوا کہ اس کے تمام محافظ اور بیشتر ساتھی محل چھوڑ گئے ہیں۔
نیرو کو خبر ملی کہ رومن سینیٹ نے اسے عوام دشمن قرار دے دیا ہے اور اسے سزائے موت دے دی جائے گی۔ حالانکہ حقیقت میں رومن سینیٹ کے کئی اراکین نیرو کے خاندان سے پرانے تعلق کے سبب اس کا لحاظ کرتے تھے اور مذاکرات سے معاملے کا حل نکالنے کے متمنی تھے۔
نیرو چونکہ اب تک مذاکرات، مصالحت، معافی جیسی چیزوں سے خود انکار کرتا آرہا تھا۔ لہٰذا اسے محسوس ہوا کہ دوسرے بھی اس کے ساتھ یہی برتاؤ کریں گے اور اسے زندہ گاڑ دیا جائے گا۔
اس نے حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے شہر سے باہر جا کر خودکشی کی تیاری کرلی۔ چند لوگ اب بھی اس کے ہمراہ تھے۔ لیکن نیرو میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ وہ خود کو خنجر مار سکتا۔ یہ کام بھی اس کے سیکریٹری کو کرنا پڑا۔
خودکشی سے پہلے نیرو نے کہا کہ ”دنیا نے مجھ جیسا کیسا نایاب فن کار کھو دیا ہے“۔ سن 68 عیسوی میں روم کو جلے ابھی صرف چار سال ہوئے تھے نیرو غیر طبعی مر گیا۔ دنیا آج بھی نیرو کو شاعر یا موسیقار کے طور پر نہیں بلکہ بے حس اور نااہل حکمران کے طور پر یاد کرتی ہے۔
اس داستان عبرت میں کئی اسباق ہیں۔ دوسروں کے سر پر الزام دھرنے سے بات نہیں بنتی۔ مذاکرات کا راستہ چھوڑ کر تصادم کی راہ پر چلنے والے بالآخر خود کو بند گلی میں پاتے ہیں۔
دو ہزار برس بعد بھی نیرو کی کہانی کسی نہ کسی ملک میں زندہ ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نیرو نے یہ تمام غلطیاں اور غفلتیں نو عمری میں کیں۔ جب 54 عیسوی میں وہ روم کا پانچواں بادشاہ بنا تو اس کی عمر 16 برس تھی۔
جب روم جلا وہ 26 برس کا تھا۔ اور جب نیرو نے مایوس ہوکر موت کو گلے لگایا وہ صرف 31 برس کا تھا۔ نیرو کے برعکس آج کے حکمران پختہ عمر میں یہ غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں۔