بغداد: سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کو عالمی سطح پر یہودی ریاست تسلیم کرانے کی جو مہم شروع کی گئی تھی اسے بائیڈن انتظامیہ نے بھی پوری قوت کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس دوران کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور اس کے تعلقات سفارتی و تجارتی تعلقات تک استوار کر چکے ہیں۔
تاہم عراق نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے امریکی منصوبے کو خاک میں ملاتے ہوئے ’’اسرائیل کا جو یار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘ کا نعرہ لگا دیا ہے۔ عراقی پارلیمنٹ نے اسرائیل سے تعلقات کو جرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا کا قانون منظور کیا ہے، جس سے صہیونی ریاست پر دہشت طاری ہوگئی ہے۔
جمعرات 26 مئی کو عراقی پارلیمان نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات رکھنے پر موت یا عمر قید کی سزا کا نیا قانون منظور کرلیا۔ عراقی پارلیمان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ قانون عوامی امنگوں کا حقیقی آئینہ دار ہے۔ عراق کی 329 رکنی پارلیمان میں 275 ارکان نے اس مسودہ قانون کی حمایت کی۔
اسرائیل اور ایران مخالف بااثر شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے اس قانون سازی کے بعد عراقی شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس عظیم کامیابی پر جشن منائیں اور شکرانے کے نوافل ادا کریں۔ ان کے اس بیان کے بعد سینکڑوں شہریوں نے وسطی بغداد میں جمع ہوکر اسرائیل مخالف نعرے بازی کی۔ الصدر کی جماعت نے گزشتہ برس بغداد کی پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔
واضح رہے کہ عراق نے سن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے لے کر آج تک اسے ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ یہی نہیں 2003ء میں حالتِ جنگ میں ہونے کے باوجود اس نے دیگر عرب ممالک کے برعکس اسرائیل کے ساتھ کبھی جنگ بندی کا معاہدہ بھی نہیں کیا۔
عرب میڈیا کے مطابق عراق کے دلیرانہ قانون کا اطلاق اسرائیل کے ساتھ کسی بھی عراقی شہری یا ادارے کی طرف سے تجارتی تعلقات رکھنے کی صورت میں بھی ہوگا۔ ماضی میں عراقی اعلیٰ حکام پر یہ الزامات بھی لگتے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تیل کی اسمگلنگ میں ملوث رہے اور یہ غیر قانونی تجارت اردن کے راستے کی جاتی تھی۔
سرکاری عراقی نیوز ایجنسی کی طرف سے شائع کردہ ورژن کے مطابق قانون کا مقصد مسلمانوں کے قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ پر قابض صہیونی ریاست کے ساتھ سفارتی، سیاسی، فوجی، اقتصادی، ثقافتی یا کسی بھی دوسرے قسم کے تعلقات کے قیام کو روکنا ہے۔
نئے قانون میں اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات قائم کرنے، کسی بھی اسرائیلی ادارے کے ساتھ رابطہ کرنے، اس کے ساتھ کام کرنے یا اس سے مدد قبول کرنے پر پابندی عائد کرنے کا ذکر ہے اور اس سے وابستہ کسی بھی خیال یا نظریے کو فروغ دینے پر بھی پابندی عائد کرنا اس میں شامل ہے۔
یہ قانون عراق میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی کمپنیوں کے علاوہ عام افراد، تمام حکام، وزارتوں اور ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ گورنریٹس، علاقوں، سرکاری اور نجی کمپنیوں، میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
عالمی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عراق کے اس اصولی فیصلے اور واضح اقدامات سے ان کوششوں کو شدید ضرب لگی ہے، جو اسرائیل کو تسلیم کرانے کیلئے گزشتہ 5 برس سے کی جا رہی تھیں۔ عراقی اقدام سے وہ مسلم ممالک بھی اب محتاط ہوجائیں گے جو پس پردہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی لائن میں ہیں، کیونکہ ان ریاستوں کو عوام کے شدید اشتعال کا سامنا کرنا پڑے گا۔