خرطوم: سوڈان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی کی خبروں کے بعد سوڈانی دار الحکومت خرطوم سمیت دیگر شہروں میں عوام نے اسرائیل کیخلاف مظاہروں کا آغاز کردیا ہے۔ ہزاروں سوڈانیوں نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کیخلاف مظاہرہ کیا اور اسرائیلی و امریکی پرچم نذر آتش کئے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ کہ سوڈانی عسکری قیادت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے بے قرار ہے، لیکن سوڈانی عوام اس کے حق میں نہیں۔ جبکہ سوڈان کی عبوری جمہوری حکومت بھی اس حوالے سے عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی تھی، تاہم فوجی قیادت کی جانب سے اسرائیل کے حق میں دباؤ ڈالا جاتا ہے، جس پر عبداللہ حمدوک کی حکومت مزاحمت نہ کرسکی۔
سوڈان کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کا مطلب بیت القدس سے غداری کے مترادف ہے اور قبلہ اول کی بازیابی سے قبل اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی سوڈانی قوم کا فیصلہ نہیں ہے۔ اور اسے کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔
ادھر امریکہ نے سوڈان سے 33 کروڑ ڈالر کا تاوان وصول کرنے کے بعد اس کا نام ”دہشت گرد ممالک“ کی فہرست سے نکال دیا ہے اور اب امریکہ کی جانب سے اس کی اقتصادی امداد کی بحالی کیلئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی شرط پوری کرائی جا رہی ہے، جس کیلئے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پوم پیو نے خصوصی طور پر سوڈان کا دورہ کیا اور سوڈان اسرائیل تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیا ہے۔
فرانسیسی خبر ایجنسی کے مطابق امریکہ اور اسرائیل دونوں نے غربت اور عدم استحکام کا شکار سوڈان کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم اور اس کی معیشت کو مضبوط کرنے کا لارا دیا ہے، جبکہ سوڈان کی معاشی ترقی کیلئے اندورنِ خانہ اماراتی حکومت نے بھی مدد کا اشارہ دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ سوڈان کو پیر کو دہشت گرد ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ سوڈان اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لا رہا ہے۔ واضح رہے کہ سوڈان کو 1993ء میں دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق سوڈان کا ”عرب اسرائیل“ جنگوں میں عسکری کردار بہت مختصر رہا ہے۔ 1967 میں اسرائیل کی امریکہ کے بل پر جنگی کامیابیوں کے بعد سوڈان کا دارالحکومت خرطوم اسرائیل مخالف سرگرمیوں کا گڑھ بنا ہوا تھا اور یہیں ”عرب لیگ“ نے اسرائیل مخالف تین نکات کا اعلان کیا، جس میںاسرائیل کے ساتھ امن، مفاہمت اور مذاکرات نہ کرنے کے نکات شامل تھے۔