تازہ ترین
امریکہ نے انسانی ڈھال کی رپورٹ کے درمیان اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ کیاکینیڈا میں بھارت کے جرائم اور ان کے پیچھے مبینہ طور پر سیاستدان کا ہاتھ ہے۔گجرانوالہ میں پنجاب کالج کے طلباء کی گرفتاریاں: وجوہات، واقعات اور اثراتپاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک کے بانی ژاؤ چن فان کا نام لے لیا گیا۔اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو ایک سال بیت گیاگریٹر اسرائیل قیام کامنصوبہغزہ کو کھنڈر بنانے کے بعد اسرائیل کی خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردیآئی پی پیز معاہدے عوام کا خون نچوڑ نے لگےایٹمی پاکستان 84 ہزار 907 ارب روپے کا مقروضافواج پاکستان کی ناقابل فراموش خدماتراج مستری کے بیٹے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں تاریخ رقم کردیہیلتھ اینڈ سیفٹی ان کول مائنز “ ورکشاپ”ٹی ٹی پی ، را ،داعش، این ڈی ایس اور براس متحرکفلسطینیوں کی نسل کشیدرس گاہیں ، رقص گاہیں بننے لگیسی پیک دہشت گرودں کے نشانے پرحافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی منتخبنئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجزکشمیراورفلسطین میں قتل عام جاریبھارتی دہشت گردی نے کشمیر کوموت کی وادی بنا دیا

اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو ایک سال بیت گیا

Israel k hathon Palestinianion ki nasal qushi ko aik saal beet giya
  • rahilarehman
  • اکتوبر 7, 2024
  • 1:38 شام

عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی حکومت کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔

غزہ کے محصور چھوٹے سے زمینی ٹکڑے میں مظلوم و مقہور شہریوںکے قتل عام اور نسل کشی کو ایک سال بیت گیا۔ عالمی دہشت گرد اور وحشی درندے اسرائیل نے انبیائے کرام کی سرزمین کو فلسطینیوں کے خون سے سیراب کرتے ہوئے تباہ و برباد کرکے غزہ کو ناقابل رہائش بنادیا ہے۔غزہ، خواتین اور بچوں کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بن چکا ہے جبکہ نیتن یاہو موجودہ دور کا ہٹلر ثابت ہو چکا ہے۔7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیل اور حماس جنگ کواسی مہینے کی سات تاریخ کو ایک سال پورا ہوگیا گا۔اس عرصے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کا منظم قتل عام جاری رہا ہے۔دہشت گردی کے عالمی چمپئن اسرائیل نے امریکا ، فرانس اور برطانیہ کی سرپرستی کی بدولت ایک سال میں غزہ کی پٹی پر سفاکانہ حملوں کے نتیجے میں کم از کم ساٹھ ہزار سے زائد افراد شہید اور دو لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں،تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے نیچے بھی ہزاروں فلسطینیوں کی لاشیںموجود ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق انخلا کرنیوالے فلسطینیوں کی تعداد 9لاکھ کے قریب ہے۔غزہ میں جس رفتار سے لوگوں کی شہادت ہوئی ہے، اس کی موجودہ صدی میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ جو لوگ ہلاک یا زخمی ہونے سے بچ گئے ہیں انھیں خوراک، صاف پانی، ادویات اور طبی سہولیات کی غیر موجودگی کے باعث جان کا خطرہ ہے خوراک کی قلت کے سبب بھی بڑی تعداد میں بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد 25 ہزار سے زائد ہے۔

اقوام متحدہ ، او آئی سی ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سمیت دنیا کی کوئی بھی طاقت یا عالمی ادارہ اسرائیل کی دہشت گردی روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی حکومت کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ عالمی عدالت انصاف فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کوبھی غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ کونسل آن فارن ریلیشنزکے مطابق 1948 کے بعد سے اسرائیل کو امریکا سے تقریباً 300 بلین ڈالر (280 بلین یورو) کی امداد ملی ہے، اس میں سے زیادہ تر فوجی مقاصد کے لیے تھی جبکہ اسرائیل کی آبادی صرف 9.5 ملین ہے،سات اکتوبر2023 کو اسرائیل اورحماس جنگ شروع ہونے پر امریکا نے اسرائیل کو ہتھیار بھیجے، اپنے جنگی بحری بیڑوں کو خطے میں بھیج دیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹوکیا۔غزہ میں جنگ بندی نہ ہونے کی زیادہ تر ذمے داری امریکا اور یورپی یونین پر عائد ہوتی ہے۔ گو اس معاملے میں روس اور چین جیسی ویٹو پاورز کا رویہ بھی زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آیا جبکہ بھارت، برازیل ، عرب لیگ سمیت او آئی سی نے بھی کوئی زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کیا جس کے نتیجے میں غزہ میں جنگ بندی نہ ہو سکی۔ امریکا نے جنگ بندی سے متعلق سیکیورٹی کونسل کے بیانات کو بھی روک دیا تھا،اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔

غزہ ایک ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ قدیم تجارتی اور سمندری راستوں پر واقع ہے۔غزہ کی لمبائی 41 کلومیٹر اور چوڑائی بارہ کلومیٹر ہے، ایک مقام پر تو چوڑائی صرف 6 کلو میٹر رہ گئی ہے۔ چھوٹی سی جگہ پر سات اکتوبر 2023 تک23 لاکھ لوگ مقیم تھے۔ 1917 تک یہ پٹی سلطنت عثمانیہ کے زیر سایہ رہی اور گزشتہ صدی کے دوران برطانیہ سے مصر اور کو منتقل ہوا۔1948میں فلسطینیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی جس کے بعد فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ جیسے 1948 میں اسرائیل کی تشکیل کے دوران ہونے والی جنگ میں لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے، جس کا خمیاز فلسطینی آج تک بھگت رہے ہیں۔ صیہونی حکومت فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔

سرزمین فلسطین کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ غصب کرنے کے بعد اب اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔1948 میں فلسطینی عرب حوج نامی جگہ پر آباد تھے جہاں اسرائیلی فوجوں نے قبضہ کر کے انھیں مغرب میں واقع غزہ کے علاقے کی طرف دھکیل دیا اور مقبوضہ جگہ کو نیا نام سیدیرت دے دیا۔وہ دن اور آج کا دن، فلسطینیوں کے آباو ¿ اجداد کی زمین اسرائیل کے قبضے میں ہے اور وہ غزہ میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لیکن اسرائیل نے اس ظلم کو کافی نہیں سمجھا اور مسلسل اس کوشش میں رہا کہ سارے فلسطین پر قبضہ کیا جائے اور اب بالآخر اس نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے۔اس قبضہ کے بعد فلسطین کا رابطہ مصر، اردن، لبنان اور شام سے کٹ جائے گا اور یہ چاروں طرف سے اسرائیلی قبضے میں آجائے گا۔ ہر طرف سے اسرائیلی ریاست میں گھر جانے کے بعد فلسطین کی کوئی سرحد باقی رہے گی اور نہ کوئی خود مختاری اور اس وقت اسرائیل فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔اسرائیل کی ناجائز ریاست کا قیام 1948 میں ایک لمبی گہری سازش جس میں عرب، برطانیہ اور بین الاقوامی دیگر قوتیں شامل تھیں ہوا، پھر برطانیہ کا عربوں کو دھوکہ اور برطانوی انتداب فلسطین کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبے کو عملی جامع پہنایا۔

اقوام متحدہ نے یہودی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے 1948 میں اپنی قرارداد 181 منظور کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی بات کی جس سے اسرائیل کی راہ ہموار ہوگئی۔نہ صرف یہ بلکہ امریکی دباو ¿ میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں 5.5 فیصد یہودیوں کو فلسطین کے 56 فیصد حصے کا مالک بنا دیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا اور پھر عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی بے گھر ہوگئے اور اسرائیل نے فلسطین کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ 1967 کی چھے روزہ جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ، مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا،جو آج تک جاری ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت پر بھی قدغن ہے۔ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کے ناجائز قبضہ کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا اور اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں، تاہم اسرائیل کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ وہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔ اسرائیل کی اس دھاندلی کو مسلمانوں نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔

مسلمان اس کے لیے مزاحمت کرتے رہے ہیں اور اس کو کچلنے کی خاطر اسرائیل بدترین مظالم کرتا رہا ہے اور اب تو اسرائیل فلسطینی عوام کی نسل کشی کر رہا ہے۔امریکا دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ یورپ پر اپنی گرفت رکھنے کے لیے روس یوکرین جنگ میںیوکرین کو باردو دے کر جنگ کو طول دے رہا ہے تو دوسری طرف مڈل ایسٹ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اور اپنے عالمی ایجنڈے غزہ کو میدان جنگ بنا کر فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔غزہ اور مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ واضح ہے۔ اسرائیل کی پالیسی بھی واضح ہے۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے باہر دھکیلنا چاہتا ہے۔ اب وہ دو ریاستی حل سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس کی مثال اسرائیلی پارلیمنٹ کی قرارداد ہے جس میں دوریاستی فارمولے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

اسرائیل جب ایک ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو اس وقت اس کا کل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے لیکن آج فلسطین کی ریاست شام کے گولان ہائیٹس تک اور لبنان کی سرحدوں تک پہنچ چکی ہے۔ اسرائیل کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ہر جارحیت کی حمایت ہے۔رواں برس چار مارچ کو یہ خبر آئی تھی کہ عالمی عدالت انصاف کی چیف پراسیکیوٹر، فتاو ¿ بن سودا نے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی باقاعدہ تحقیقات کا آغازکردیا ہے۔ فتاو ¿ بن سودا نے کہا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے دوران تیرہ جون2014 سے اب تک کے اسرائیل کے زیرِ قبضہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی میں ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا جائے گا۔عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) کو یہ اختیار ہے کہ وہ ریاستوں اور ان خطوں کی سرزمین پر نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف معاہدہ روم کے مطابق کارروائی کرے، جنھیں اقوام متحدہ تسلیم کرتا ہے۔ عالمی عدالت کی تشکیل کی بنیاد معاہدہِ روم ہے، لیکن اسرائیل نے کبھی معاہدہِ روم کی توثیق نہیں کی، تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے 2015 میں فلسطینیوں کے الحاق کی توثیق کردی تھی۔

مشرقی تیمور میں آزادی کے مطالبے کی عالمی برادری نے جس سرعت کے ساتھ حمایت کی کاش ایسی پھرتی فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی مظالم کے جواب میں بھی نظر آتی۔ ان تمام حالات کے باوجود سرنگ کے آخری کنارے پر کچھ روشنی بھی معلوم ہوتی ہے، اسی لیے تو اسرائیل اپنی تمام توپوں، گولوں، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے باوجود جارحیت کو طول نہیں دے سکا۔یہ عالمی رائے عامہ کا فلسطینیوں کے حق میں جھکاو ¿ ہے جس کا واضح ثبوت امریکا اور مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہیں۔ پاکستان میں جماعت اسلامی سمیت سول سوسائٹی اور دیگر اداروںسمیت تنظیموں کی جانب سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی پرزور انداز میں مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری پر واضح کیا گیا کہ اسرائیلی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی برادری بھی فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔اسرائیل فلسطینیوں پر بدترین جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین اس جارحیت کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود عالمی طاقتیں اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور ظلم پر خاموش ہیں۔ ایسے میں عالمی امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

ستمبر میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے پرانے مو ¿قف کو ہی دہرایا ہے جو امریکا کا مو ¿قف بھی رہا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کی واحد ضمانت اور واحد راستہ دو ریاستی حل ہے،کیونکہ جو بائیڈن انتظامیہ ایک طویل عرصے سے کوشش میں ہے کہ وہ کسی طرح اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان ایک معاہدے کی صورت بنا سکے۔ دوسری جانب اسرائیل بار بار کہتا رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی آزاد ریاست دینے کو تیار نہیں ہے۔ خصوصاً سات اکتوبر 2023کے بعد اس نے یہ موقف کئی بار دہرایا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں ایک قرارداد کے حق میں ووٹ بھی دیا ہے کہ فلسطینی ریاست قبول نہیں ہے۔ ان کا یہ انکار بلاشبہ دہائیوں سے جاری تصادم کو کم نہیں کرتا ہے بلکہ کشیدگی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ اس کے بر عکس عرب ملکوں نے کافی عرصے سے یہ کہہ رکھا ہے کہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ اسرائیل فلسطینی ریاست کا قیام قبول کر لے، یہ کھڑکی آج بھی کھلی ہے۔سات اکتوبر 2023 سے پہلے فلسطین کے تین زون بنانے کی تجویز تھی جبکہ حتمی طور پر سعودی عرب یہی کہتا ہے کہ 1967 کی سرحد کی بنیاد پر فلسطینی ریاست قائم ہو، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ دوسری جانب اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو، امن مذاکرات شروع کرنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل میں دائیں بازو کی بعض جماعتیں بھی اس تنازع کے دو ریاستی حل کی مخالف ہیں۔ دوسری جانب مغربی کنارے میں کنٹرول رکھنے والے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس دو ریاستی حل کے خواہاں ہیں اور عالمی برادری پر بھی اس حوالے سے زور دیتے رہے ہیں۔ حماس اسرائیل کے قیام کو ہی غیر قانونی سمجھتی ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں، لیکن اس تنازع کی پیچیدگی اور تشدد کے واقعات کے باعث دو ریاستی حل کے راستے میں حائل رکاوٹیں بڑھتی جارہی ہیں۔ درحقیقت غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ فلسطین میں کون سے فارمولے کے تحت مستقل اور دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 1993میں اوسلو معاہدے کے تحت دریائے اُردن کے مغربی کنارے، غزہ اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر مشتمل اسرائیل کے متوازی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا جو تجربہ کیا گیا تھا (جسے دو ریاستوں کا فارمولا بھی کہا جاتا ہے) وہ عملاً ناکام ہوچکا ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ میں تباہ کن بمباری اور گولہ باری کے ذریعے غزہ کو ناقابل رہائش بنادیاہے۔فلسطین میں عرب باشندوں کی سب سے زیادہ تعداد 30 لاکھ دریائے ا ±ردن کے مغربی کنارے، جسے عام طور پر ”مغربی کنارے“ کے نام سے پکارا جاتا ہے، میں آباد ہے۔ وہاں بھی فلسطینی اسرائیل کی جارحیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کا مغربی کنارے سے رابطہ ختم کر کے اسے فلسطینیوں کے لیے ایک نو گو ایریا قرار دے دیا ہے۔

فلسطینی ریاست جسے ” فلسطینی اتھارٹی“ کہا جاتا ہے اور جس کے صدر محمود عباس ہیں، کی غزہ میں عملداری ختم ہو چکی ہے اور مغربی کنارے میں بھی وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے حملوں سے بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کے خلاف اعلانِ جنگ پر بے دریغ عمل کر کے مشرقِ وسطیٰ میں جو نیا سیاسی نقشہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس میں فلسطین میں فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ حالانکہ عالمی برادری جس میں عرب اور مسلمان ملکوں سمیت امریکا بھی شامل ہے ” دو ریاستی فارمولے“ پر اصرارکر رہے ہیں، لیکن اس فارمولے پر اسرائیل کے دیرینہ موقف اور سات اکتوبر کے بعد کی اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں حالات اس قدر تبدیل ہوچکے ہیں کہ اس فارمولے کی بنیاد پر فلسطین میں مستقل امن کے قیام کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔دو ریاستی فارمولا، جو دراصل نومبر 1947 میں فلسطین کو دو، عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر مبنی تھا، انتہا پسند یہودیوں کو قبول نہ تھا، اور وہ بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے ا ±ردن تک پورے فلسطینی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اور 1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے ہر اقدام کا مقصد اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ 1948 میں عربوں اور اسرائیل کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کردہ-

یہودی ریاست کے رقبے سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرلیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انھیں اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی لبنان، شام، ا ±ردن اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔یہ فلسطینی، جن کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اب تک بے وطنی اور کسمپرسی کی زندگی بسرکر رہے ہیں، لیکن وہ اسرائیل کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں اپنے گھروں کی واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔1967کی جنگ میں اسرائیل نے دریائے ا ±ردن کے مغربی کنارے کے علاوہ غزہ اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اس سے عرب اسرائیل تنازع میں ایک اور عنصر کا اضافہ ہوگیا تھا، یعنی مغربی کنارے، غزہ اور شام کی سطح مرتفع گولان پر قبضے کا۔ جنوری 1967میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے چار عرب ممالک یعنی مصر، ا ±ردن، شام اور لبنان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دریائے ا ±ردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد، خود مختار اور با اختیار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو، جس کے بدلے میں عرب ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر لیں گے بلکہ اس کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کی سرحدوں کی ضمانت بھی دیں گے، لیکن اسرائیل نے سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔

اس طرح اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرقِ وسطیٰ میں مستقل امن کے قیام کا ایک تاریخی موقع گنوا دیا تھا۔ پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں امن کے فقدان اور آئے دن کے تصادم کے پیچھے اسرائیل کے ساتھ امریکا کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ 1967کے بعد عرب ممالک کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر امن پیشکش کو امریکا کی شہ پر اسرائیل نے مسترد کیا، لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 1991میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ اسرائیل کو بھی ” دو ریاستی“ فارمولے پر راضی ہونا پڑا تھا۔ اس کی وجہ مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات اور اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کی حامی سیاسی پارٹیوں کے بجائے لبرل اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل لیبر پارٹی کا برسر اقتدار آنا تھا، تاہم 2009 میں جب نیتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی ایک مخلوط حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اوسلو معاہدے (1993) کے تحت ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔ان میں اسرائیل کو ایک یہودی ریاست میں تبدیل کرنا اور دوسرے بیت المقدس کے ان علاقوں میں، جہاں فلسطینی آبادی کی اکثریت ہے، یہودی آباد کاروں کی بستیاں تعمیر کرنا ہے۔ بیشتر مبصرین کی رائے میں ” دو ریاستی فارمولا“ اب قابل عمل نہیں رہا۔

اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق چار سے چھ لاکھ کے قریب یہودی آباد کار رہائش پذیر ہیں۔ انھیں ان کی بستیوں سے نکال کر ایک فلسطینی ریاست قائم کرنا ناممکن ہے۔ اس کے بجائے فلسطینیوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں، جہاں فلسطینیوں کو برابر کے شہری، سیاسی، قانونی اور معاشی حقوق میسر ہوں۔اس کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس وقت بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے ا ±ردن کے کنارے تک تمام علاقے میں یہودیوں اور فلسطینیوں کی برابر تعداد آباد ہے اور ان کے درمیان مستقل امن اور مفاہمت صرف ایک ریاست کی صورت میں ہی ممکن ہے، مگر اسرائیل اسے بھی مسترد کرچکا ہے۔ اس کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا واحد حل تمام فلسطینیوں کو ا ±ردن میں آباد کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز دراصل فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے ان کے وطن سے محروم کرنے کے مترادف ہے اورفلسطینی اسے کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن