ایران اور مغربی دنیا کے تعلقات ایک بار پھر کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے پابندیوں اور 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی پر ایران نے بھی رد عمل میں اس معاہدے کی کچھ شرائط سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے، جو یورپی ممالک کو قابل قبول نہیں۔ فرانس نے خبردار کیا ہے کہ یورپ ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ جوہری معاہدے کے بعد یورپی ممالک ایران کیلئے امریکہ کے سخت رویے کے بھی مخالف رہے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کی جانب سے عالمی جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے ایک سال بعد ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ معاہدے کے کچھ اہم نکات سے دستبردار ہو رہا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ تہران افزودہ یورینیئم کے ذخائر ملک میں رکھے گا، تاہم ان کو کسی بیرونِ ملک فروخت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے انتہائی حد تک افزودہ یورینیئم کی پیداوار 60 روز میں دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
واضح رہے کہ جوہری معاہدے کا مقصد ایران کو اقتصادی پابندیوں سے چھوٹ دے کر ان کے جوہری عزائم کو روکنا تھا۔ تاہم امریکہ کی جانب سے اس معاہدے کو چھوڑنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور امریکہ نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں دوبارہ لگا دی ہیں۔ اسی طرح یورپی ممالک بھی ایرانی فیصلے کو خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ اگر ایران جولائی 2015ء میں عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو یورپ اس پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کردے گا۔ فرانس کے ایوان صدر کے ایک ذریعے نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ ایران جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزی پر مبنی اقدامات کا اعلان کرے کیونکہ اس صورت میں ہم یورپی ممالک سمجھوتے کی شرائط کے تحت ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے پابند ہوں گے لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے‘‘۔
ادھر ایران کی جانب سے باضابطہ اعلان سے ایک روز قبل امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے عراق کا ایک غیر اعلانیہ دورہ کیا اور امریکہ نے ایک جنگی بحری بیڑا چلیجِ فارس میں بھیج دیا ہے۔ امریکہ کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ قدم ایران کی جانب سے دھمکیوں کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔ جان بولٹن کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی حملے کی صورت میں سخت قوت کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔