ایسے ہی ایک پاکستانی نوجوان عبداللہ امانت محمدی ہیں، جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ عبداللہ گوگل رینکنگ بہتر بنانے کے فن یعنی ایس ای او میں مہارت رکھتے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے کمائی کا ہنر دوسروں کو بھی سکھا رہے ہیں۔ ان کا تعلق لاہور کے نواحی گاؤں چونیاں چک نمبر 17 سے ہے۔
یہ بھی اچھنبے کی بات ہے کہ وہ گاؤں میں بیٹھ کر گوروں کیلئے نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ غیر ملکی زر مبادلہ پاکستان میں لانے کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں۔ ’’واضح رہے‘‘ نے 28 سالہ انٹرنیٹ ایکسپرٹ عبداللہ سے ایس ای او سمیت مختلف موضوعات پر تفصیلی بات جیت کی ہے، جو نذر قارئین ہے:
واضح رہے: آج آپ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ انٹرنیٹ سے لاکھوں کا بزنس کر رہے ہیں اور اکیڈمی قائم کرکے نوجوانوں کو آن لائن ارننگ کے گُر بھی سکھا رہے ہیں، تو کیا آپ نے خود بھی پہلا کام انٹرنیٹ پر حاصل کیا تھا؟
عبداللہ امانت محمدی: جی نہیں۔ دراصل میں غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے اور گھریلو اخراجات کیلئے بہت چھوٹی عمر سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ابتدا میں اپنے والد کے ساتھ کھیتی باڑی کرتا تھا۔ آٹھویں جماعت کے امتحان دینے کے بعد فیکٹری میں لگ گیا، جو لاہور میں ’’روز بریڈ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہاں میں نے ہیلپر کے طور پر کام کیا اور میری تنخواہ 3500 روپے تھی۔ گرمیوں کی تعطیلات کے دوران میں نے تقریباً ڈھائی ماہ اسی فیکٹری میں مزدوری کی۔
اس کے بعد گاہے بگاہے اور بھی کام کرتا تھا۔ اور اسی کے ساتھ اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس اثنا میں میرا میٹرک مکمل ہوگیا۔ میٹرک کے بعد والد کی کاوشوں سے آئی سی ایس میں داخلہ لیا۔ والد صاحب نے اپنی استطاعت کے مطابق میری تعلیم مکمل کرانے کیلئے پوری کوشش کی۔ مگر پھر بھی کالج کی فیس سمیت بعض اخراجات پورے کرنے کیلئے مجھے خود بھی مزدوری کرنا پڑتی تھی۔
واضح رہے: کیا آپ نے مزید تعلیم حاصل کی؟
عبداللہ امانت محمدی: سچ بات یہ ہے حالات ایسے نہیں تھے کہ آئی سی ایس کے بعد اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکوں۔ چنانچہ میں نے نوکری ڈھونڈنا شروع کردی۔ مجھے اس بار بھی ہیلپر کا کام ملا، جو اوریئنٹ فیکٹری کے اسٹور میں تھا۔ اسٹور سے فیکٹری کیلئے سامان فراہم کیا جاتا تھا اور میں اسے اپنے پاس نوٹ کرلیتا تھا۔ یہاں میری تنخواہ 5500 روپے تھی۔ اس کے علاوہ راشن وغیرہ کا بینیفٹ بھی مل جاتا تھا۔ اس فیکٹری میں بھی میں نے دو سے ڈھائی ماہ ہی کام کیا۔
جہاں رہائش تھی وہاں بحریہ ٹاؤن میں کام کرنے والا ایک شخص رہتا تھا۔ اس نے مجھے مولن وال بحریہ ٹاؤن میں 8 ہزار روپے تنخواہ پر ٹیوب ویل آپریٹر لگوا دیا۔ رہائش اور کھانا مفت ہونے کے سبب جو پیسے ملتے تھے وہ سارے گھر میں دے دیتا تھا۔ بہرحال، اسی سال یعنی 2012ء میں مولن وال بحریہ ٹاؤن سے رائیونڈ روڈ پر واقع بحریہ آرچرڈ آگیا۔ ساتھ ہی ساتھ میں نے ورچوئل یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ دو سالہ بی سی ایس کے تین سمسٹر میں نے بحریہ میں ملازمت کے دوران ہی دیئے۔ اس کے بعد ایک سمسٹر رہتا تھا، لیکن میں نے بحریہ ٹاؤن کی نوکری چھوڑ دی۔
2015ء میں سُم پیکجز نامی کمپنی میں منیجر کے طور پر ملازمت کی۔ یہ لاہور کے صنعتی علاقے سندر اسٹیٹ میں پیکنگ کی ایک فیکٹری ہے، جو کہ زیادہ بڑی کمپنی نہیں تھی مگر جتنے بھی ایمپلائز تھے وہ میری نگرانی میں تھے۔ ملازمین کی تنخواہوں سمیت سامان کی چیکنگ بھی میری ذمہ داری تھی۔ یہاں میں نے 6 ماہ کام کیا۔
واضح رہے: تمام کام جو آپ نے بتائے یہ تو فزیکل یا دفتری ڈیوٹی کے زمرے میں آتے ہیں، انٹرنیٹ سے کمائی کا خیال کب ذہن میں آیا؟
عبداللہ امانت محمدی: جب 2015ء کے آخر میں، میں نے پیکنجنگ کمپنی کی ملازمت چھوڑی تو مزید بہتری کی خواہش تھی۔ میں نے rozee.pk میں پُرکشش نوکریوں کی تلاش شروع کی۔ مجھے اس بات کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں کس جاب کیلئے اپلائی کر رہا ہوں۔ بس یہی لگن تھی کہ کہیں سے بھی اچھی آفر آجائے اور میں اس موقع سے استفادہ حاصل کروں۔
اسی کوشش کے دوران مجھے پاک کنسلٹنٹ نامی ایک کمپنی سے content writer کی جاب کیلئے کال آئی۔ یہ کمپنی لاہور کینٹ میں گرجا چوک کے پاس سے آپریٹ کرتی تھی۔ یہاں سے میں نے حقیقی معنوں میں انٹرنیٹ سے کمائی کا اپنا سفر شروع کیا۔ انٹرویو ہوا تو میں نے کمپنی کے باس محمد یعقوب صاحب سے گزارش کی کہ مجھے ایک موقع دیں۔ انہوں نے مجھ سے شفقت کرتے ہوئے چانس بھی دیا اور ٹریننگ بھی دی، جس کے بعد میں کمپنی میں content writer لگ گیا۔ تقریباً 10 ماہ میں نے یہاں کنٹنٹ رائٹنگ کی جاب کی۔
یوں 2016ء میری زندگی کا ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، کیونکہ اس سال کے اوائل میں، میں نے کنٹنٹ رائٹنگ کا کام شروع کیا اور سال کے اختتام تک میں اپنا ذہن بنا چکا تھا کہ مجھے اپنا کنٹنٹ رائٹنگ کا کام شروع کرنا چاہیئے۔ لہٰذا نومبر 2016ء میں نے کمپنی چھوڑ کر اپنے لئے کنٹنگ رائٹنگ کا آغاز کیا۔
واضح رہے: اپنے کنٹنٹ رائٹنگ کے کام کا تجربہ کیسا رہا اور SEO کا خیال کیسے آیا؟
عبداللہ امانت محمدی: فری لانس کنٹنٹ رائٹنگ میں ایسا ہوتا تھا کہ کبھی کام آتا تھا اور کبھی نہیں۔ اور کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوگ کام تو کرا لیتے تھے، مگر پیسے نہیں دیتے تھے۔ اس سے تھوڑا سا دلبرداشتہ بھی ہوجاتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اس کام میں زیادہ فائدہ نہیں ہے تو مجھے SEO کا کام بھی سیکھنا چاہیئے۔ ایس ای او میں دلچسپی اس وجہ سے بڑھی کہ میری ایک ویب سائٹ تھی، جسے گوگل پر رینک کرنا چاہ رہا تھا۔
AAM Consultants پر میں کنٹنٹ رائٹنگ ہی کرتا تھا اور اسے رینک کرنے کا مقصد یہ تھا کہ گوگل سے آنے والے انٹرنیٹ صارفین مجھے آرڈر دیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرا ایس ای او کا شوق بڑھنے لگا اور یہ سوچ بھی کہ اگر میرے پاس دو skills ہوں گے تو مجھے دونوں mode کے کام ملیں گے اور میں زیادہ وقت فارغ بھی نہیں رہوں گا۔ لہٰذا میں نے سرچ انجن آپٹیمائزیشن (ایس ای او) سیکھنا شروع کی اور یوٹیوب پر اس کے مختلف کورس دیکھے، جو کافی مددگار ثابت ہوئے۔
ایس ای او سیکھنے کے بعد مجھے اس کی پریکٹس کیلئے جاب اور گھر کے اخراجات کیلئے پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ یوں ایک بار پھر میں جاب کیلئے اپلائی کرنے لگا۔ مجھے ڈی ایچ اے، ایچ بلاک میں قائم اوپن سول گلوبل نامی کمپنی میں ملازمت حاصل ہوئی۔ وہاں میں نے کنٹنٹ رائٹنگ کا کام کیا اور ساتھ ہی کمپنی نے یہ مجھے ایس ای او کی ذمہ داری بھی سونپ دی۔ یہ میرے لئے انتہائی خوشی کی بات تھی، کیونکہ میں ایس ای او میں مہارت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ فروری 2018ء تک میں اسی کمپنی میں رہا اور ایس ای او کے تمام اسرار و رموز سیکھ لئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا کہ میری اپنی ویب سائٹ بھی تھی، اسی لئے اب میری تمام تر توجہ اس کو آگے بڑھانے پر مرکوز تھی۔ قدرت مجھ پر ایسی مہربان ہوئی کہ مجھے ایک بہت اچھا کلائنٹ بھی مل گیا تھا۔ میں نے اس پر کیپٹلائز کیا اور معیاری کام کرکے ویب سائٹ کو پروموٹ اور گروم کیا۔ اور اب میری ویب سائٹ پاکستان کی 10 سرفہرست ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔
واضح رہے: سب سے زیادہ ایس ای او تجربہ کہاں اور کس کی رہنمائی میں حاصل کیا؟
عبداللہ امانت محمدی: جس کمپنی ’’اوپن سول گلوبل‘‘ میں کام کر رہا تھا، اس کے مالک قاسم مشتاق وڑائچ تھے۔ وہ ایک بہت اچھے انسان ہیں۔ انہوں نے مجھے کافی سپورٹ کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہی نہیں پوری ٹیم نے بڑا تعاون کیا۔ سب لوگ بہت اچھے تھے۔ قاسم مشتاق کے بھائی توصیف مشتاق بھی کام میں بہتری لانے کیلئے میری رہنمائی کرتے تھے۔
اسی طرح ’’اوپن سول گلوبل‘‘ میں ہی گرافک ڈیزائنر نعیم نے بھی میرا بہت ساتھ دیا۔ ایک اور گرافک ڈیزانر اسد مجید تھا، جو ویب سائٹ کے حوالے سے میری مدد کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں دو ڈویلپرز سلیمان اور شاہ زیب کا بھی بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا، جو مجھ سے بڑے بھائیوں کی طرح پیش آتے تھے اور جہاں کہیں مجھے مشکل پیش آتی تھی، اس پر اپنی ماہرانہ رائے سے مجھے نوازتے تھے۔
واضح رہے: آپ اس وقت کن ممالک میں موجود کلائنٹ کو ایس ای او سروسز فراہم کر رہے ہیں؟
عبداللہ امانت محمدی: الحمد للہ درجن بھر ممالک میں میرے کلائنٹس ہیں۔ اس وقت میرے سب سے زیادہ ایکٹو کلائنٹس برطانیہ میں ہیں۔ اس کے بعد آسٹریلیا، امریکہ، کینیڈا، چین، پاکستان اور نائجیریا کے بھی کلائنٹس میرے پاس ہیں۔
واضح رہے: پہلا غیر ملکی کلائنٹ کون تھا؟
عبداللہ امانت محمدی: میں فروری 2018ء میں برطانیہ مقیم پاکستانی نژاد تاجر اسد شمیم کے ساتھ منسلک ہوگیا تھا، جو کہ ایک آن لائن فرم ’’فرنیچر ان فیشن‘‘ کے بانی اور سی ای او ہیں۔ الحمد للہ ان کے ساتھ میں اب بھی کام کر رہا ہوں۔ ابتدا میں ان کے ساتھ میرا 500 ڈالر ماہانہ تنخواہ کا معاہدہ ہوا۔ میں ان کی فرنیچر ویب سائٹ کیلئے کام کرتا تھا اور اس تجربے سے بھی مجھے بہت مدد ملی۔ یہ میرے لئے یقیناً اس وقت ایک بڑی کامیابی تھی کہ ماہانہ 50 ہزار کے لگ بھگ انٹرنیٹ کے ذریعے کمانا شروع کئے۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً انہوں نے میری پے میں اضافہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے اور کلائنٹس بھی ملنا شروع ہوگئے۔
واضح رہے: اب آپ پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں تو کیسا لگتا ہے؟
عبداللہ امانت محمدی: آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں کہ جب میں نے اپنا پہلا لیپ ٹاپ لیا تھا تو اس وقت میرے پاس سات ہزار بھی پورے نہیں تھے۔ میں نے دو، دو ہزار جمع کرکے یا شاید کسی سے ادھار لے کر بھی وہ لیپ ٹاپ خریدا تھا، جس پر میں نے نیا نیا ایس ای او کا کام کیا اور سیکھا۔ اللہ نے میرا ہاتھ تھاما اور اپنی رحمت سے مجھے میری محنت کا ثمر دیا۔ جب اچھی ارننگ کرنے لگا تو ایک ایڈوانسڈ لیپ ٹاپ بھی لے لیا۔ اسی طرح نیا فون اور بائیک بھی خرید لی۔ دوسری جانب اللہ کے فضل و کرم سے میرا کام بھی بڑھتا گیا۔
(عبداللہ امانت محمدی کا پہلا لیپ ٹاپ، جس پر انہوں نے ایس ای او کا کام شروع کیا)
میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک بندہ بھی رکھ لوں، کیونکہ کام اتنا بڑھ چکا تھا کہ میرے اکیلے کے بس کی بات نہیں تھی۔ میں نے جس ایمپلائی کو ہائر کیا اس کا نام شہروز جمال تھا، جس نے مجھے انتہائی مفید اور مخلصانہ مشورہ دیا کہ آپ کو اپنا یہ کام مزید بڑھانا چاہیئے۔ کیونکہ ویسے بھی مجھے بہت سارے کلائنٹس کے فون آتے تھے۔
لہٰذا میں نے شہروز کی بات پر عمل کرتے ہوئے اور بھی لوگوں کو کام پر رکھ لیا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا کام کتنا بڑھ گیا ہوگا کہ کہاں میں خود نوکری ڈھونڈتا تھا، اب میں لوگوں کو نوکریاں دینے کے قابل (بفضل تعالیٰ) ہوگیا۔ یوں تبدریج میں اپنی ٹیم بناتا رہا اور نئے لڑکوں کو کام سکھا کر اپنی سماجی ذمہ داری بھی پوری کرنے لگا۔ اس طرح آہستہ آہستہ نہ صرف یہ کہ میری آمدنی بڑھتی گئی بلکہ میرے اسکلز بھی بہتر ہوتے گئے۔
پہلے تو گھر پر ہی کام کا سیٹ اپ بنایا ہوا تھا اور جو دو تین لڑکے آتے تھے وہ میرے گھر پر ہی کام کرتے تھے۔ لیکن پھر مجھے ایک آفس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں نے اپنا دفتر بھی بنالیا۔ الحمد للہ اب میرے پاس ایک باصلاحیت، ہونہار اور پُرعزم لڑکوں پر مشتمل ٹیم ہے۔ میں یہ اعتماد سے کہہ سکتا ہے ہوں کہ میری ٹیم بہت اچھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے ہمیں اچھا کام بھی ملتا ہے۔ ہم نے مل کر مشترکہ مالی اور پروفیشنل فوائد اور اہداف حاصل کئے ہیں۔
واضح رہے: کیا انٹرنیٹ پر موجود مواقع سے ملک میں بے روزگاری کو قابو پایا جاسکتا ہے؟
عبداللہ امانت محمدی: آج کل کی ڈیجیٹل دنیا میں یہ ناممکن نہیں ہے۔ ایک بڑے نقطہ نظر سے، میں نے محسوس کیا کہ ملک میں جو نوجوان بے روزگار ہیں وہ آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے تعمیری کوششیں کریں اور اپنی محرومی یا مالی پریشانیوں کو دور کریں۔ اس نیک مقصد کیلئے ہم پہلے ہی AAM Nation Care نامی ایک ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد رکھ چکے ہیں، جس کے تحت ایک اکیڈمی قائم کی گئی ہے۔
بنیادی طور پر ’’اے اے ایم نیشن کیئر‘‘ کا مقصد غریب اور کم آمدن والے افراد کو ان کے پیروں پر کھڑا کرکے ان کی زندگیوں میں بہتری لانا ہے۔ ہم نے اپنا ہدف یہ مقرر کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مستحق لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے کمائی کے اسرار و رموز سکھائے جائیں، تاکہ وہ ’’آن لائن ارنگ‘‘ کے جدید طور طریقوں کو اپنا کر اپنے گھر کے معاملات درست انداز میں چلا سکیں اور ایک بہتر زندگی ان کی منتظر ہو۔ ویسے بھی انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کمانے کا ہنر سیکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہم لاہور کے قریب واقع ایک شہر چونیاں میں نوجوانوں کو بالکل مفت ٹریننگ دیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک محدود سطح پر ہی ہوسکتا تھا۔ اس لئے میں نے یوٹیوب پر اپنا آن لائن کورس شروع کر دیا، جس پر یقیناً سب کی دسترس اور رسائی ہے۔ میں اس حوالے سے جدید ترین اور معلوماتی کورس کرا رہا ہوں، تاکہ پاکستانی نوجوان انٹرنیٹ پر موجود مواقع سے مستفید ہونا چاہیں تو انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو اور وہ بڑے اعتماد کے ساتھ ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر قدم رکھ سکیں۔
الحمد للہ میرے ایس ای او کورس پر بہت اچھے ویوز آ رہے ہیں اور بہترین رسپانس مل رہا ہے۔ آگے بھی ہم اپنے یوٹیوب چینل پر نئے کورسز لے کر آئیں گے۔ میری یہی خواہش ہے کہ ملک کے نوجوان خصوصاً بے روزگار طبقہ زیادہ سے زیادہ سے استفادہ کرے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سمیت اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے کے قابل ہو جائے۔ غربت کے خاتمے کے چند انقلابی اقدامات میں یہ بھی اہم قدم ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ
اس انٹرویو کا انگلش ترجمہ: The Inspiring Story Of Abdullah Amanat Muhammadi: An SEO Specialist That Grew His Online Business To Over The Millions In Sales